تحریر:سروج سنگھ
’’’کل مودی حکومت نے کہا اویسی آپ کو Z زمرہ کی سیکورٹی دیں گے، ہم نے کہا کہ جب سے ہم سیاست میں آئے ہیں، ہم نے کبھی سیکورٹی نہیں لی اور نہ ہی لیں گے۔‘‘
مودی جی، یوگی جی یاد رکھیئے، اویسی کو سیکورٹی دے کر، آپ اگر پہلو خاں کو، جنید کو، رکبر اوراخلاق کو سیکورٹی نہیں دیں گے تو میری سیکورٹی کیا فائدہ ؟
آپ اقلیتی سماج کے بھارت کے غریبوں کو، مسلمانوں کو، دلتوں کو اورپسماندہ طبقات کو اے کیٹیگری کا شہری بنائیں، مجھے ان کی حصہ داری چاہیے، ہماری لڑائی حصہ داری کی ہے۔
اپنے اوپر ہوئے حملے کے ایک دن بعد آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور حیدرآباد سے لوک سبھا کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ایک انتخابی ریلی میں اتر پردیش کے لوگوں سے یہ بات کہی۔
4 فروری کو یوپی میں میرٹھ سے دہلی واپس آتے ہوئے ان کی گاڑی پر حملہ ہوا، جس کے بعد اتر پردیش کے انتخابات میں ان کی بحث تیز ہو گئی ہے۔
اتر پردیش انتخابات میں اے آئی ایم آئی ایم کی حیثیت
اے آئی ایم آئی ایم کا دعویٰ ہے کہ وہ یوپی میں 100 سیٹوں پر الیکشن لڑیں گے۔ 6 فروری تک انہوں نے 72 امیدواروں کی فہرست جاری کرچکی ہے۔
ایک طرف اسد الدین اویسی پر حملے کی باتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف بہار میں گزشتہ اسمبلی انتخابات میں پانچ سیٹیں جیتنے کے بعد پارٹی کے حوصلے بلند ہیں۔ اورنگ آباد سیٹ سے پارٹی کے ایم پی سید امتیاز جلیل کا کہنا ہے کہ انہوں نے بی جے پی سے 100 سیٹوں پر لڑنے کی تحریک لی ہے۔
بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’کچھ سال پہلے تک بی جے پی کے پاس صرف دو ممبران پارلیمنٹ تھے۔ آج ان کے پاس 300 سے زیادہ ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ پچھلے پانچ سالوں میں ہم نے لوگوں کے درمیان اترپردیش میں بہت محنت کی ہے۔ اور اب لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اقلیتیں کس طرح پسماندہ ہیں، خواب دکھائے جاتے ہیں، لیکن وہ سیاست میں ان کی حصہ دای نہیں ہوتی، انہیں عہدے نہیں دیے جاتےہیں۔‘
2017 میں بھی AIMIM نے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں حصہ لیا تھا۔ انہوں نے 38 سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ کئی نشستوں پر ان کے امیدواروں کی ضمانت ضبط ہو گئی تھی۔ 12 اسمبلی نشستوں میں ان کے امیدوار چوتھے نمبر پر آئے، جبکہ ایک سیٹ پر ان کے امیدوار دوسرے نمبر پر آئے تھے۔ یہ اعداد و شمار سینٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپنگ سوسائٹیز (CSDS) کے ہیں۔
پچھلے سال پنچایتی انتخابات میں بھی انہوں نے تقریباً 20 سیٹیں جیتی تھیں۔ ریاستوں کی بات کریں تو ان کی پارٹی کے تلنگانہ، مہاراشٹرا اور بہار میں ایم ایل اے ہیں۔
سی ایس ڈی ایس کے پروفیسر اور سیاسی تجزیہ کار سنجے کمار کا کہنا ہے کہ اویسی کی پارٹی کو بہار میں پانچ سیٹیں ملی تھیں، لیکن یہ جیت پارٹی کی نہیں بلکہ ان امیدواروں کی جیت تھی۔ وہ کہتے ہیں،’ان پانچ سیٹوں کے علاوہ، دیگر سیٹوں پر اے آئی ایم آئی ایم کے ووٹ فیصد، انہیں 4-5 فیصد ووٹ بھی نہیں ملے۔ وہ پانچ مضبوط امیدوار تھے جنہوں نے اپنی پارٹی سے الیکشن لڑا اور جیتا۔ اسی طرح وہ یوپی انتخابات میں تال ٹھوک رہے ہیں، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یوپی میں ان کی پارٹی کے لیے کوئی امکان ہے۔‘ سی ایس ڈی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق، 2017 کے اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں AIMIM کا ووٹ شیئر 0.24 فیصد تھا۔ یعنی 1 فیصد سے بھی کم۔
اقتدار میں حصہ داری کی مانگ
2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق اتر پردیش کی 200 ملین آبادی میں سے 40 ملین مسلمان ہیں۔ یعنی تقریباً 20 فیصد آبادی۔ اس بار یوپی میں اے آئی ایم آئی ایم، مسلمانوں ؍ اقلیتوں کی اقتدار میں حصہ داری کو اہم مسئلہ بنا رہی ہے ۔ جب سے اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی نے اترپردیش میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا ہے، وہ مسلسل اس پر بات کر رہے ہیں۔
گزشتہ سال ستمبر میں انہوں نے بی جے پی پر الزام لگایا تھا کہ تعلیم میں مسلم طلباء کی تعلیم چھوڑنے کی شرح 60 فیصد ہے۔ یوپی حکومت نے اس کے لیے کیا کیا؟ 2017-18 میں پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت 6 لاکھ گھر تقسیم کیے گئے، جن میں سے صرف 10 مسلمان ہیں۔ ایم ایس ڈی پی کے تحت اقلیتوں کے لیے 1600 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، جس میں سے صرف 16 کروڑ خرچ کیے گئے۔
تاہم، بی جے پی لیڈر اور مرکزی وزیر مختار عباس نقوی کا دعویٰ ہے کہ پردھان منتری آواس یوجنا کا فائدہ حاصل کرنے والے 2 کروڑ لوگوں میں سے 31 فیصد اقلیتی ہیں۔ کسان سمان ندھی کا فائدہ حاصل کرنے والے 12 کروڑ کسانوں میں سے 33 فیصد اقلیتی ہیں۔
یہاں ایک بات قابل غور ہے کہ اسد الدین اویسی اتر پردیش کے تناظر میں بول رہے تھے جب کہ مختار عباس نقوی قومی تناظر میں۔
سینئر صحافی رام دت ترپاٹھی نے اعتراف کیا کہ بی جے پی کے دور حکومت میں اترپردیش کے مسلمان سیاسی طور پر الگ تھلگ اور اس سے مایوسی کا شکار ہیں۔ بی بی سی سے بات چیت میں انہوں نے کہا کہ’مسلمانوں کو بھی سیاسی حصہ داری کی ضرورت بھی ہے۔ وہ اب تک اپوزیشن کے کردار سے زیادہ خوش نہیں ہیں۔ ایسے میں اویسی یقینی طور پر اترپردیش میں اپنی پارٹی کو وسعت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ بھی ان کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں لیکن ریاست میں ان کی پارٹی کی تنظیم مضبوط نہیں ہے اور ان کے پاس کوئی بڑا عوامی بنیاد نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں اس قسم کی حمایت نہیں مل رہی ہے، ہاں ان مسائل سے جو وہ اٹھا رہے ہیں، اقلیتی برادری اتفاق رکھتے ہیں ،مگر ایک فکر یہ بھی ہے کہ وہ اپنا ووٹ ضائع نہ کریں۔‘
بی بی سی نے اے آئی ایم آئی ایم کے رکن اسمبلی سید امتیاز جلیل سے ہر طرف سے کیے گئے دعوؤں پر سوال کیا۔
انہوں نے کہا، ’بی جے پی سرکاری اسکیموں میں اقلیتوں کو کچھ دے کر کوئی احسان نہیں کر رہی ہے۔ جب ہم حصہ داری کی بات کر رہے ہیں تو وہ سیاسی شراکت کی بات کر رہے ہیں۔ ہمارے ووٹ سے آپ راج کریں گے، اقتدار میں آپ بیٹھیں گے۔ لیکن ہماری کوئی شرکت نہیں ہوگی؟ ہمیں پارلیمنٹ اور ودھان سبھا میں شرکت کی ضرورت ہے کیونکہ تمام فیصلے یہاں ہوتے ہیں۔ 2012 میں یوپی ودھان سبھا میں ہمارے 62 ایم ایل اے تھے جو اب گھٹ کر 23 رہ گئے ہیں، آخر کیوں؟
سید امتیاز جلیل جب یہ کہتے ہیں تو ان کا اشارہ اپوزیشن جماعتوں کی طرف ہوتا ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی ویسے بھی اقلیتی امیدواروں کو میدان میں اتارنے کے لیے نہیں جانی جاتی ہے۔ کانگریس، بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی نے نسبتاً زیادہ مسلم امیدوار کھڑے کیے ہیں۔
اپوزیشن کے لیے ’ووٹ کٹوا‘ ثابت ہوں گے؟
تو کیا اے آئی ایم آئی ایم کے میدان میں آنے سے اپوزیشن پارٹیوں کے ووٹ تقسیم ہوں گے؟ اور کیا اس سے بی جے پی کو فائدہ ہوگا؟
اس سوال کے جواب میں امتیاز جلیل کہتے ہیں، ’یہ الزام ہم پر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے لگایا جاتا ہے، اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ میں اپنی پارلیمانی سیٹ کی مثال دے کر یہ بتا سکتا ہوں۔ میں اورنگ آباد کی پارلیمانی سیٹ کی نمائندگی کر چکا ہوں۔ وہاں کی اقلیتیں کانگریس اور این سی پی کو ووٹ دیتی تھیں، لیکن جب پہلی بار اے آئی ایم آئی ایم میدان میں اتری تو ہماری پارٹی جیت گئی، ہم نے 25 سال پرانی پارٹیوں کو شکست دی، یعنی اگر اقلیتیں متحد ہو جائیں تو وہ ایم پی بھی بنا سکتی ہیں اور ایم ایل اے بھی۔‘
تاہم، اتر پردیش کے تناظر میں پروفیسر سنجے کمار اس دلیل سے متفق نظر نہیں آتے۔ پروفیسر سنجے کمار اپنے جائزے کی بنیاد پر کہتے ہیں، ’یوپی میں مسلم ووٹر اس بار بہت زیادہ توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ مسلم اور جاٹ دونوں کے دشمن اس وقت ایک ہیں اور وہ ہے بی جے پی۔ اس بار مسلم ووٹ تقسیم ہونے والا نہیں ہے۔ اترپردیش میں مسلمان ووٹ سماج وادی پارٹی کو 50 فیصد کے آس پاس ملتا رہا ہے۔ ایک بار 60 فیصد کے اوپر بھی ملا ہے۔ اس بار میرا اندازہ ہے 75 فیصد کے آس پاس مسلمان ووٹ سماج وادی پارٹی کو جارہا ہے ۔ باقی بچے 25فیصد میں اے آئی ایم آئی ، بی ایس پی ، کانگریس اور دوسری پارٹیوں کو مل سکتا ہے۔ اے آئی ایم آئی سنجیدہ ووٹ کٹوا تب ثابت ہوگی ،جب 8 سے 12 فیصد کےدرمیان ووٹ شیئر لے جائے۔ اس الیکشن میں ویسا ہوتا ابھی تک نہیں دکھ رہا ہے۔‘‘
وہیں سینئر صحافی رام دت ترپاٹھی کہتے ہیں، ’بہار کے نتائج سے یہ واضح ہے کہ اگر AIMIM کو بہار کی طرح یوپی میں بھی کچھ سیٹیں مل جاتی ہیں، تو بی جے پی پچھلے دروازے سے دوبارہ اقتدار میں آئے گی۔ اس کی وجہ سے اتر پردیش کے مسلمان اس بار خوفزدہ ہیں۔ مسلمانوں کو مایاوتی کے بارے میں بھی شکوک و شبہات ہیں۔ انہوں نے جس طرح سے اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں، اس سے یہ تاثر پیدا ہو گیا ہے کہ بی جے پی کو مدد ملے گی یا اپوزیشن کو نقصان پہنچے گا۔ اسی لیے اقلیتیں ایس پی کی طرف جاتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔
سی ایس ڈی ایس کے اعداد و شمار کے مطابق 2017 کے اسمبلی انتخابات میں 45 فیصد مسلمانوں نے سماج وادی کو ووٹ دیا تھا۔ کانگریس اور بی ایس پی کو برابرایک 19 فیصد ووٹ ملے تھے۔
گولی سانحہ کا اثر
لیکن کیا 4 فروری کے حملے کے بعد زمینی حالات بدل گئے ہیں؟
بی بی سی کے نامہ نگار دلنواز پاشا مسلمان ووٹروں کی نبض جاننے کے لیے مغربی اترپردیش پہنچے۔ وہاں انہوں نے دیکھا کہ بہت سے نوجوانوں کو لگتا ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں مسلمانوں سے دوری پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور ایسے حالات میں مسلمانوں کو اپنی قیادت قائم کرنی چاہیے۔ ان کا اشارہ اسد الدین اویسی کی طرف تھا۔ تاہم نوجوانوں نے یہ بھی کہا کہ کافی کوششوں کے بعد بھی اسدالدین اویسی انتخابات میں مسلمانوں کو زیادہ متاثر کرتے نظر نہیں آرہے ہیں۔
اے آئی ایم آئی ایم ان دعوؤں کی سختی سے تردید کرتی ہے۔ لیکن امتیاز جلیل نے اعتراف کیا کہ وہ اسد الدین اویسی پر حملے کو پارٹی کے لیے تسلی کے طور پر نہیں دیکھتے، لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس حملے نے ریاست کی امن و امان کی صورت حال کو ضرور بے نقاب کر دیا ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی ہندی)