رجنیش کمار
27 مارچ کی صبح ،وقت 5 بج کر 45 منٹ۔ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اور حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسدالدین اویسی نے اچانک ہاورہ اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر چھ پر دستک دی۔
کچھ مسلم نوجوان پلیٹ فارم پر گلدستے لے کر کھڑے تھے۔ پلیٹ فارم پر نعرہ گونج اٹھا: ’دیکھو ، دیکھو کون آیا ، شیر آیا ، شیر آیا۔‘
تھوڑی ہی دیر میں اویسی نے موبائل پر قرآن پاک پڑھنا شروع کیا۔ تقریباً 40 منٹ تک قرآن مجید پڑھتے رہے۔ اویسی مغربی بنگال کے انتخابات میں پہلی بار جلسہ کرنے کے لئے مرشد آباد سے ساگرڈیہہ جارہے تھے۔
قرآن مجید کی تلاوت کے بعد انہوں نے جلسہ میں کی جانے والی تقریر کی تیاری کرلی۔ مختلف اقسام کے ڈیٹا پر مشتمل دستاویزات نکالے اور پڑھتے وقت انڈر لائن کرتے گئے۔
اسٹیشن سے اویسی اپنے حامیوں کے ساتھ سیدھے ہوٹل گئے اور ڈھائی بجے کے قریب اسٹیشن کے قریب سریندر نارائن ہائی اسکول کے میدان میں اسٹیج پر آئے۔
پھر وہی نعرہ:’ ‘حیدرآباد کا شیر آیا ، شیر ہندوستان زندہ باد‘۔میدان میں 10 ہزار کی بھیڑ آسکتی تھی لیکن پورابھرا نہیں تھا۔
اویسی نے یہ اعلان کرتے ہوئے اپنی تقریر کا آغاز کیا کہ ان کی پارٹی فی الحال دو سیٹوں پر انتخاب لڑنے والی ہے۔ اویسی کے اس اعلان کا بھیڑ نے تالیوں کی گونج سے خیر مقدم کیا ۔
اویسی نے اپنی ریلی میں ممتا بنرجی کے ایک پرانے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہجب 2019 میں بی جے پی نے 18 نشستیں حاصل کی تو میڈیا نے ممتا سے پوچھا کہ کیا مسلمانوں نے ووٹ نہیں دیے؟ اس کے جواب میں ممتا نے کہا کہ اگر گائے دودھ دیتی ہے تو وہ لات بھی مارتی ہے۔ بتاؤ مسلمانوں تم کیا گائے ہو؟ بتاؤ مجھے آج ؟ تو ممتا نے ایسا کیوں کہا؟
ٹرین میں اویسی نے تقریر کی جو تیاری کی تھی وہ تقریر کے دوران واضح طور پر جھلک رہی تھی۔ اویسی مسلمانوں کی صورتحال سے متعلق متعدد رپورٹس کا حوالہ دے رہے تھے۔ اعداد و شمار بتا رہے تھے کہ مسلمان ملازمت ، تعلیم اور بنیادی سہولیات کے معاملے میں کس طرح پیچھے ہیں۔
اویسی نے یہ بھی پوچھا کہ 30 فیصد مسلم آبادی کے مطابق اسمبلی میں کم از کم 100 ایم ایل بننےچاہئے تھے ، لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا؟ اویسی نے یہ بھی کہا کہ اگر ممتا 40 مسلمانوں کو بھی ایم ایل اے بنا دیں گی تو اسمبلی میں گونگے کی طرح رہیں گے، جبکہ ان کی پارٹی کے دو ایم ایل اے شیر کی طرح دہاڑیں گے۔
آپ کے حامی آپ کو شیر کہتے ہیں ، کیا آپ بھی خود کو شیر سمجھتے ہیں ؟میں نے ان کو روکا کہ بھائی نعرے مت لگائے کیونکہ یہ ریلوے اسٹیشن ہے ۔ سیاست میں لوگوں کے جذبات ہوتے ہیں۔ لوگ بھی محبت میں کچھ زیادہ بول دیتے ہیں۔ بھائی میں تو انسان ہوں۔ یہ لوگوں کی محبت ہے ، جس کے لئے میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔
کیا شیر کا استعارہ بے ساختہ ہے؟ یا اس کا بھی اپنا مقصد ہے؟ کیا یہ ایسا نہیں ہے کہ آپ کے حامیوں کو یہ لگتا ہے کہ انہیں کسی ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جو ہر حال میں ان کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا ہو؟
اس سوال کے جواب میں اویسی کہتے ہیں ، ’دیکھئے ! میں اپنی پارٹی کوقائم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘ میری کوشش ہے کہ جو لوگ پسماندہ ہیں ، خاص کر مسلمان ، جنہیں سیاسی حقوق سے مسترد کیا جارہا ہے ، ان کو ان کے حقوق ملیں۔ اگر مجھے موقع ملا ہے تو میں کوشش کر رہا ہوں۔ ‘
ایک زمانے میں ان کے حامی گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو شیر کہتے تھے۔ مودی کو ان کے حامیوں نے گجرات کا شیر کہتے تھے۔ کیا یہ استعارہ منتقل ہو گیا ہے؟ اویسی کہتے ہیں ،’آپ اسے زیادہ کھینچ رہے ہیں۔‘ سیاست میں اس طرح کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔ میں لوگوں کی محبت کا احترام کرتا ہوں۔ حتیٰ کہ میں اس طرح نعرے لگانے سے روکا بھی ۔ پارٹی اہم ہے ، شخصیت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لوگوں کی محبت ہے لیکن ہم اسے بھی روکتے ہیں۔ ‘‘
مغربی بنگال میں بی جے پی کے مضبوط ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟ آخر ایسا کیا ہوا کہ لگتا ہے کہ بی جے پی اقتدار کے قریب آرہی ہے؟
اس سوال کے جواب میں اویسی نے کہا ، ’دیکھئے بی جے پی اور آر ایس ایس کی توسیع میں ہر کسی نے ساتھ دیا ہے۔ اس میں ممتا بھی شامل ہیں۔ جب گجرات جل رہا تھا تو ممتا بی جے پی کے ساتھ تھیں۔ بی جے پی جن ریاستوں میں مضبوط ہوئی ہے وہاں مبینہ سیکولر پارٹیوں نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ چاہے وہ آسام ، بہار ، تلنگانہ ہو یا کرناٹک ، سب میں دیکھیں گے تو اوپنگ دلانے کا کام مبینہ سیکولر پارٹیوں نے کیا ہے۔
یوپی میں دیکھ لیجئے۔ وہاں بھی ایس پی اور بی ایس پی ساتھ رہیں۔ بی جے پی نے بنگال میں کانگریس اور بائیں بازو کے ووٹ کا مکمل صفایا کردیا۔بی جے پی سے جب یہ پارٹیاں ہارنے لگتی ہیں اور ہم انتخاب لڑنے آتے ہیں تو ہار کی ذمہ داری میرے اوپر ڈالنے لگتے ہیں۔‘
اویسی کہتے ہیں ، بی جے پی آپ کی غلطیوں کےسبب آگے بڑھ رہی ہے۔ اگر آپ ہار رہے ہیں تو آپ مجھے ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں۔ یہ ہمیں اچھوت مانتے ہیں اور بی جے پی سے انہیں اتحاد کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ہے۔ 2002 میں ممتا بنرجی نے نریندر مودی کو مبارکباد دی تھی۔
کولکاتا ریسرچ گروپ مغربی بنگال میں اسمبلی انتخابات کی مہم کے بارے میں ایک سروے اور تحقیق کر رہا ہے۔
اس کے محقق پرینکر ڈے کہتے ہیں ، اویسی کا سوال بالکل ٹھیک ہے۔ اگر آپ بی جے پی کے ساتھ اتحاد بنا سکتے ہیں اور اویسی کو اچھوت مانتی ہیں تو آپ کی سیاست میں کچھ پریشانی ہے۔ غیر بی جے پی پارٹیوں کو لگتا ہے کہ ان کا اتحاد اویسی کے ساتھ ان کی مطابقت بڑھا دے گا، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ انھیں زیادہ دیر تک روک کر رکھا جاسکتا ہے۔
اویسی کہتے ہیں ، آج بھی بہار میں آر جے ڈی قائدین تکبر اور غرور میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب بہار اسمبلی میں ہوا تھا اور انہوں نے ہماری پارٹی کے مقننہ پارٹی کے رہنما اور ریاستی صدر اختر الایمان سے بھی بات نہیں کی۔ آپ ان سے پوچھتے تک نہیں ہیں۔ کیا اسے یہ نہیں کہنا چاہئے تھا کہ اس انتخاب میں مدد کریں؟ جن کے پیٹ میں درد ہے ، انہیں دوا لینی ہوگی۔ ‘