تحریر: شکیل رشید
ہری دوار میں17 تا19، دسمبر’ اسلامی دہشت گردی اور ہماری ذمہ داریاں ‘ کے موضوع پر ایک ’ دھرم سنسد ‘ میں ’ سادھوؤں اور سنتوں ‘ کے ذریعے ، ملک کو ’ ہندو راشٹر ‘ میں تبدیل کرنے اورمسلمانوں کےقتل عام کے لیے ، ہندوؤں کو ہتھیار اٹھا لینے کی ترغیب اور دھمکی دینے کے معاملہ میں ، پولیس نے ’ مرتد ‘ جتیندر نارائن تیاگی عرف وسیم رضوی اورچند ’نامعلوم افراد ‘ کے خلاف مقدمہ دائرکیا ہے ۔ اس مقدمے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ وہ جو ’ قتل عام ‘ کی دھمکیاں دے رہے تھے ، وہ جو ’ قتل عام ‘ کے لیے لوگوں سے ’ قسمیں ‘ لے رہے اور نعرے لگوا رہےتھے ، بالکل ’ نامعلوم ‘ نہیں ہیں ، لیکن اتراکھنڈ پولیس نے مقدمہ میں ، صرف ایک نام ’ جتیندر تیاگی عرف وسیم رضوی ‘ کاشامل کیا ہے ، باقی جو دھمکیاں دے رہے تھے انہیں ’ نامعلوم ‘ قرار دے دیا ہے !
اس مقدمہ پر ، مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا محمود دریابادی نے اپنےردعمل میں مذکورہ اردو محاورے کا استعمال کیا ہے ، جو تیاگی عرف وسیم رضوی پر مکمل صادق آ رہا ہے ۔ خیر جسے ’ دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا ‘ کہا گیا ہے اس کے تعلق سے بات کرنے سےپہلے ہری دوار کے ’ دھرم سمیلن ‘ کی بات کر لیتے ہیں جومسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی اور زہریلے بیانات یابالفاظ دیگر ’ ہیٹ اسپیچ ‘ کا سمیلن بن گیا تھا ۔ دھرم سنسد کا منتظم یتی نرسنہا نند گری تھا، وہی نرسنہا جو وسیم رضوی کو مرتد بنانے میں پیش پیش تھا ۔ لوگوں نے دیکھا ہی ہوگا کہ غازی آباد کے ، گری ہی کے مندر میں وسیم رضوی نے پوجا پاٹ کر کے مرتد بننے کا اپنا عمل پورا کیا تھا ۔ یہ نہ جانے کتنی بار مسلمانوں کو قتلِ عام کی دھمکیاں بھی دے چکا ہے اور مذہبِ اسلام کی توہین بھی کر چکا ہے ۔ یہ وہی نرسنہا نند ہے جس نے ، دہلی میں ، وہاں کے اسمبلی الیکشن سے کچھ پہلے ، جنوری2020ء میں ایک دھرم سنسد کا انعقاد کیا تھا ، خوب زہر اگلا تھا ، اور نتیجتاً فروری 2020 میں دہلی کو مسلم کش فسادات نے اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ۔ اب اترپردیش( یو پی ) کے اسمبلی الیکشن سر پر ہیں ، اور یتی نرسنہا نند گری نےپھر سے دھرم سنسد کے بہانے مسلمانوں کے خلاف نفرت کے پرچار کا منچ سجا لیا ہے ۔ ہریدوار کے اس منچ سے یتی نرسنہا نند گری نے جو کچھ بھی کہا ، اگر وہ کوئی مسلمان کہتا یا کسی اور اقلیتی فرقے کا کوئی بھی شخص کہتا ، تو اس کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج ہو جاتا ۔ لیکن مقدمہ تو دور پولیس نےاپنی رپورٹ میں گری کا نام تک شامل نہیں کیاہے ! گری نے کہا کیا ، اسے جان لیں ۔ گری کا زور اس پر تھا کہ مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ حل نہیں ہے ، حل ہتھیار اٹھا لینا ہے ، اس کے بغیر کوئی فرقہ محفوظ نہیں رہ سکتا ، زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کیے جائیں اور بہتر سے بہتر ہتھیار رکھے جائیں ۔ نرسنہانند نے نعرہ دیا ’’ شاشتر میو جئتے‘‘ ۔ گری نے ہندو پربھاکرن ، ہندو بھنڈران والا اور ہندو شابیک سنگھ بننے والے کو ایک کروڑ روپیہ دینے کا اعلان کیا ۔ گری نے کہا کہ بھارت بڑی تیزی کے ساتھ ’ اسلامک اسٹیٹ ‘ بن رہا ہے اس لیے اسے جلد سے جلد ’ سناتن ویدک راشٹر ‘ بنایا جائے ۔ اس کا آسان زبان میں مطلب ہے ہندوستان کو ’ ہندو راشٹر ‘ بنایا جائے ۔ گری نے اسلام سے اپنی لڑائی کو ’ پہلے کی زندگی ‘ سے چلی آ رہی لڑائی بتایا اور کہا کہ یہ لڑائی آئندہ کی زندگی میں بھی جاری رہے گی ۔ اگر مذکورہ باتیں کسی کو ’ ہیٹ اسپیچ ‘ کے زمرہ سے باہر کی لگتی ہیں ، جیسے کہ شاید وزیراعظم مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کو لگ رہی ہیں کہ دونوں اب تک اس پر خاموش ہیں ، تو لوگ نرسنہا نند گری کے اس حلف کے بارے میں بھی جان لیں جو وہاں موجود لوگوں کو دلایا گیا تھا ۔ گری نے لوگوں سے قسم لی ’’ میں نرسنہا نند گری ماں گنگا کےکنارے پر یہ حلف لیتا ہوں ، اب سناتن دھرم کی ، اپنے خاندان کی ، اپنی بہن بیٹیوں کی اور بیوی کی ، میں ہمیشہ حفاظت کروں گا ۔ دنیا کی کوئی بھی برادری ہو ، جو میرے مذہب ،میرے خاندان ، میرے بچوں ، میری عورتوں کو نقصان پہنچانے کی سوچے گا بھی ، میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا ۔ ہم اپنے دھرم کے لیے زندہ رہیں گے ، اپنے دھرم کے لیے مریں گے ۔ اسلام کا جہاد ختم ہوجائے گا ۔ سناتن دھرم لافانی رہے گا ۔ سناتن کے دشمنوں کی تباہی ہو ۔‘‘ کیا یہ حلف کسی بھی طرح سے ملک کے آئین کے مطابق ہے؟ سچ تو یہ ہے کہ سارا دھرم سنسد ، ساری زہریلی تقریریں اور ساری اشتعال انگیزیاں ، آئین کے خلاف تھیں مگر کسی کےخلاف نامزد رپورٹ نہیں لکھی گئی سوائے اس کے جسے ’ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا ‘ کہا گیا ہے ۔
ہریدوار میں صرف نرسنہانند گری ہی نے زہر نہیں اگلا ، زہر اگلنے والوں میں مہاتمی گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کی پجارن سادھوی انا پورنا عرف پوجا شکن پانڈے بھی تھی ۔ یہ وہی علی گڑھ کی رہنے والی سادھوی ہے جس نے مہاتما گاندھی کے پتلے پر گولیاں برسائی تھیں ، چونکہ اس کا کچھ بگڑا نہیں تھا اس لیے اب وہ مسلمانوں پر گولیاں برسانے کی ترغیب دیتی پھر رہی ہے ۔ یہ نرنجنی اکھاڑہ کی مہامنڈلیشور اور ہندو مہاسبھاکی جنرل سکریٹری ہے ۔ سادھوی نے کیا کہا ، جان لیں ۔ سادھوی نے مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے اکساتے ہوئے کہا کہ اگر آپ ان کی آبادی کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ماردو ، مارنے اور جیل جانے کے لیے تیار رہو ۔ اس نے کہا کہ اگر سو ہندو بھی ۲۰ ، لاکھ لوگوں کو مارنے کے لیے تیار ہوجائیں تو ’’ ہم جیت جائیں گے۔ ‘‘ سادھوی نے کہا کہ وہ گوڈسے کی طرح بدنامی اٹھانے کے لیے تیار ہے لیکن وہ ہتھیار اٹھائے گی ۔ کیا اس پر مقدمہ نہیں بننا چاہیے ؟ یہ سوال اتراکھنڈ کی انتظامیہ سے بھی ہے اور ریاست و مرکزی سرکاروں سے بھی ، حالانکہ خوب پتہ ہے اس سوال کا جواب کسی کی طرف سے بھی نہیں ملے گا ۔ اس دھرم سنسد میں اتراکھنڈ میں نفرت کی لہر پھیلانے والا سوامی پربودھانند گری بھی شامل تھا ، جو ’ ہندو رکشھا سینا ‘ کا مکھیا ہے ۔ اس نے کیا کہا ، یہ بھی جان لیں ۔ اس نے ’ تیاری ‘ کرنے کو کہا ، اس نے کہا کہ میانمار اور دہلی میں ہندوؤں کے سر قلم کیے گئے ، لٹکایا گیا ، اس لیے ہندو بھی مرنے مارنے کے لیے تیار ہو جائیں ۔ سوامی نے کہا کہ میانمار کی طرح یہاں کے لیڈر ، فوج اور ہر ہندو یہاں ہتھیار اٹھا لے ۔ یہ وہ پربودھا نند ہے جو یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی کے ساتھ کئی بار تصویروں میں دیکھا گیا ہے ، مطلب بی جے پی سے اس کا بڑا قریبی رشتہ ہے ۔ یہ سوامی پہلے بھی اشتعال انگیزی کر چکا ہے ، اس نے کہا تھا کہ ہندوؤں کو چاہیے کہ وہ آٹھ بچے پیدا کریں ، اس نے کہا تھا کہ مسلمان ہی ہیں جو ہندو عورتوں کی عصمت دری کرتے ہیں ۔ اور اسی نے ’ لو جہاد ‘ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف شرانگیز مہم چلائی تھی ۔ ایک اور دھرم گرو سوامی آننداسوروپ بھی تھا ، جو منچ سے مسلمانوں کی نسل کشی کا زوردار پرچار کر رہا تھا ۔ یہ سب چہرے جانے پہچانے ہیں اور دھرم سنسسد کی ان کی زہریلی ’ نسل کشی ‘ کا پرچار کرنے والی تقریریں باقاعدہ ویڈیو پر دیکھی جا سکتی ہیں ، لیکن اترا کھنڈ کی پولیس انہیں ’ نامعلوم ‘ قرار دے رہی ہے ! تعصب اور جانبداری اسے نہیں تو اور کسے کہتے ہیں ؟
ایک آدمی کا۔۔۔حالانکہ وہ آدمی کہلانے کے قابل نہیں ہے۔۔۔ذکر باقی رہ گیا ہے اشوک چوہانکے کا ۔ اس نے دہلی میں ۱۹ ، دسمبر کو ایک پروگرام کیا تھا ، مقصد لوگوں کو ’ ہندو راشٹر ‘ کے قیام کے لیے لڑنے اور مرنے مارنے پر تیار کرنا تھا ۔ چوہانکے ’ سدرشن ٹی وی ‘ کا سنپادک ہے ، اور سنگھی بھی ۔ اس کا پروگرام ’ ہندو یوا واہنی ‘ کے جھنڈے تلے تھا ۔ لوگ جانتے ہی ہیں کہ یہ تنظیم یو پی کے وزیراعلیٰ یوگی کی ہے ۔ مطلب صاف ہے ، اس پروگرام کو بی جے پی کی پشت پناہی حاصل تھی ، جیسے ہریدوار کے دھرم سنسسد کو ۔ دھرم سنسد میں بی جے پی کا ایک لیڈر اشونی کمار اپادھیائے بھی موجود تھا اور بی جے پی مہیلا مورچہ کی لیڈر ادتیہ تیاگی بھی تھی ۔ اپادھیائے وہی ہے جس نے گزشتہ اگست میں دہلی میں جنتر منتر پر مسلمانوں کو مارنے کے نعرے لگائے اور لگوائے تھے ، اور گرفتار بھی ہوا تھا ۔ چوہانکے نے بھی نرسنہانند گری کی طرح لوگوں کو حلف دلایا ’’ اس دیش کو ہندو راشٹر بنانے ، اور ہندو راشٹر بنائے رکھنے کے لیے ، ضرورت پڑنے پر ہمیں لڑنا ،مرنا اور مارنا پڑے گا ۔‘‘ چوہانکے نے اپنے حلف کو شیواجی مہاراج سے جوڑ دیا ہے ۔ ایک ٹوئٹ میں اس نے کہا ہے کہ ’’ اورنگ زیب کی قسم لینے والو ! یہ قسم 26،اپریل 1645کو چھترپتی شیواجی مہاراج جی نے رائے ریشور مندر میں لی تھی ۔ تب سے اب تک کروڑوں بہادروں نے یہ دلوائی ، لاکھوں نے قربانیاں دیں ، میں انہیں میں سے ایک چھوٹا سا سپاہی ہوں ۔ غزوۂ ہند بنانے کا تمہارا سپنا کبھی پورا نہ ہو ، اس لیے یہ قسم ہے۔‘‘
یہ تو واضح ہے کہ یہ ساری اشتعال انگیزی یو پی کے اسمبلی الیکشن کے لیے ہے ، لیکن یہ کس قدر خطرناک ہے شاید یہ واضح نہیں ہے ۔ زہریلی باتیں کرنے والے سادھو سنٹوں نے میانمار کی مثال دی ہے ، وہاں ایسی ہی زہریلی تقریروں نے مسلم فرقے کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکائی تھی اور قتلِ عام شروع ہوا تھا ۔ لیڈروں اور فوج کو مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کے لیے اکسایا گیا ہے ۔ شیواجی مہاراج کے نام پر ’ مسخ تاریخ ‘ پیش کر کے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنے کے لیے اکسایا گیا ہے ۔ ظاہر ہیکہ یہ تمام ہی باتیں ملک کے لیے بھی اتنی ہی تشویش ناک ہیں جتنی کہ مسلم فرقے اور دیگر اقلیتوں کے لیے ۔ جی ! دیگر اقلیتیں بھی نشانہ پر ہیں ، بالخصوص عیسائی ۔ مگر نامزد مقدمہ صرف وسیم رضوی کے خلاف بنا ہے ۔ قربانی کے لیے ایک ’ بد جانور ‘ تلاش کر لیا گیا ہے ، چلیے اس طرح اسے پتہ تو چلے گا کہ وہ چاہے سو بار ہندو بن جائے ، وہ قابلِ قبول نہیں ہے ، ایمان سے گیا اور اب ہندو بھی اسے چھوڑ گئے ہیں ، نہ گھر کا رہا نہ گھاٹ کا ۔ اچھی بات یہ ہے کہ ، گودی میدیا کو چھوڑ کر ، غیر جانبدار میڈیا نے ہریدوار معاملہ پر سخت تشویش جتائی اور انتظامیہ اور حکمرانوں سے سخت سوالات کیے ہیں ۔ ہندوستانی فضائیہ کے سابق سربراہ ایڈمرل ارون پرکاش نے ہریدوار کی اشتعال انگیزی پر سخت گرفت کی ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب سرحدوں پر ہمارے جوانوں کو دو طرف سے دشمنوں کا سامنا ہے کیا ہم فرقہ وارانہ خونریزی ، اندرون ملک بد نظمی اور عالمی سطح پر بےعزتی کے متحمل ہو سکتے ہیں ؟ ان کا کہنا ہے کہ لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جو بھی چیز قومی سالمیت اور یکجہتی کو نقصان پہنچائے گی وہ ملک کی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہو گی؟ لیکن کہاں ان فرقہ پرستوں کو ملک کی سلامتی کی فکر ہے ، یہ تو ہر حال میں کرسی چاہتے ہیں ۔ بیرون ممالک سے بھی ہریدوار کی اشتعال انگیزی پر شدید ردعمل سامنے آئے ہیں ۔ بہت احتیاط کی ضرورت ہے ، دہلی الیکشن کے موقع پر فساد کیا گیا ہے ، اب یو پی اسمبلی الیکشن پر بھی فساد کیا اور کرایا جا سکتا ہے ۔ بی جے پی کی نیا بھنور میں ہے ، اور وہ موقع تلاش کر رہی ہے ، لہذٰا کوشش یہ کرنی ہے کہ اسے کوئی موقع نہ مل سکے ۔ ہاں اس ملک میں جو نفرت کے تاجروں کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں ہم اور ہمارے لیڈر ان کے ساتھ کھڑے ہوں کہ یہ ضروری ہے اور ان کی آواز سے آواز ملا کر یہ سوال کریں کہ کیوں نفرت کے بیوپاری پکڑے نہیں جا رہے ہیں ۔ وہ بھی اب راہ پر آئیں جو بھاگوت اور چوہانکے اور دوسرے سنگھی لیڈروں کے ساتھ منچ ساجھا کرتے اور ان کے منظورِ نظر بننے کے لیے ملک ، قوم و ملٹ سب کو نظر اندز کر دیتے ہیں ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)