تحریر:قاسم سید
ہندوستانی مسلمانوں کے سبب سے معتبر اور باوقار پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم پرسنل لا۱ بورڈ کی مجلس عاملہ کی گزشتہ 27مارچ کو لکھنؤ میں میٹنگ ہوئی اس پر سب کی نظریں لگی تھیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ کامن سول کوڈ معاملہ کو طول نہ دینے اور حجاب کا مقدمہ لڑنے جیسے کئی امور پر بورڈ کا مشورہ بہت خوب ہے۔بہت دنوں کے بعد متوازن ڈپلومیٹک لب ولہجہ والی پریس ریلیز سامنے آئی ۔مسلم حلقوں نے اس کا خیر مقدم کیا مگر وہیں ترجمان کی نامزدگی کے سوال پر خاموشی چھائی رہی جس پر حیرت ہونا فطری ہے ، حالانکہ موجودہ چیلنج بھرے نازک دور میں بورڈکو پہلے سے زیادہ فعال،متحرک مستقل ترجمان کی ضرورت ہےجو بوقت ضرورت دستیاب ہو ،انگریزی،ہندی اور اردو میں لکھنے، بولنے کے ساتھ جواب دینے اور مسائل کاادراک ہو۔نیز اس کے بیانات سے تنازع پیدا نہ ہو۔
مریدوں کے حلقہ میں فقیہہ العصر کے نام سے معروف جید عالم اور بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے 18دسمبر2021کو ’روزنامہ خبریں‘ کے ساتھ گفتگو میں وعدہ کرتے ہوئے یقین دلایاتھا کہ ’اترپردیش کے ریاستی الیکشن کے بعد بورڈ کو نیا ترجمان مل جائےگا، کیونکہ الیکشن کے بعد عاملہ کی میٹنگ ہوگی جس میں اس تعلق سے فیصلے کی امید ہے۔‘(انہوں نے کہا کہ وہ ذاتی طور سے اس کے حق میں ہیں کہ بورڈ کا نیا ترجمان بنایا جائے یہ معلوم کرنے پر کہ کیا بورڈ کے صدر اس کے حق میں نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ نہیں نہیں ایسا ہرگز نہیں )
یو پی الیکشن کے بعد بورڈ کو نیا ترجمان مل جائے گا:مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
مولانا سجاد نعمانی کے ترجمان کے عہدے سے استعفیٰ کے بعد مولانا رحمانی یہ ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر بورڈ کے سامنے کیا موانع ہیں ،کیا باصلاحیت موزوں قابل قبول ترجمان مل نہیں رہا ہے ؟کیا ایسے افراد زیادہ تعداد میں ہیں کہ ان میں سے انتخاب مشکل ہے ؟یا پھر بورڈ کسی کو نامزد ہی کرنا نہیں چاہتا، جیسے کام چل رہا ہے چلتا رہے۔ظاہر ہے کسی فقیہہ العصر سے ایسی امید نہیں کی جاسکتی اس سلسلہ میں اصل معاملہ کو جاننے کے لیے موجودہ ترجمان مولانا رحمانی کو بارہافون کیا ۔شاید اپنی مصروفیت کے سبب حسب سابق وہ فون نہیں اٹھا سکے ۔یہ پہلا معاملہ نہیں ۔ویسے بھی ہمارا ہر بڑا اِلا ماشاءاللہ اس عادت میں مبتلا ہے۔ یہ ان کی اظہار رائے کی آزادی کا معاملہ ہے ،چوں کرنا بھی توہین ادب کے زمرہ میں آتا ہے ۔بہر حال حسن ظن کی رعایت کے ساتھ مولانا کو اپنے سابقہ وعدے کے پس منظر میں یہ وضاحت کرنی چاہیے کہ آخر بورڈ کا ترجمان نامزد کرنے میں کیا پریشانی،ہچکچاہٹ یا مجبوری ہے ۔یا وہ خود ہی ترجمان رہنا چاہتے ہیں کیا بورڈ میں اس پر اختلاف ہے ۔حالیہ میٹنگ میں کئی ایسی باتیں ہوئی ہیں اگر وہ باہر آجائیں تو بورڈ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوگا۔
دوسری طرف بورڈ کے بعض ممبران کے حساس ایشوز پر بیانات کی وجہ سے بورڈ کو دقتیں ہوتی رہتی ہیں جبکہ کوئی اتھارٹی نہیں ہوگی تو مسائل پیدا ہوں گے ہی کیونکہ بورڈ کا آفیشیل بیان سمجھا جاتا ہے پھر مین اسٹریم میڈیا اسے لے اڑتا ہے، اس طرح کی صورتحال کے مدنظر بورڈ کو مضبوط فعال،تینوں زبانوں پر دسترس کے ساتھ مسائل کے ادراک والے کسی شخص کو جو میڈیا کے تقاضوں سے واقف ہو کوفوری ترجمان بنانا چاہیے جو بورڈ کی پسند اور مطلوبہ’ معیار‘ کے مطابق ہو اور اس کے’قابو‘ میں رہے ۔ کوئی میکنزم بنانا توپڑے گا ۔بعض حلقوں کا یہ تاثر دور کرنا بھی ضروری ہے کہ بورڈ کی اعلیٰ قیادت کمزور ہے اور فیصلوں کو ٹالتی ہے ۔مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کو وعدہ پورا نہ کرپانے کی وجہ تو بتانی ہوگی کیونکہ ان کا سابق بیان کہ یوپی الیکشن کے بعد بورڈ کو نیا ترجمان مل جائے گا پبلک ڈومین میں ہے ،بورڈ کے تئیں احترام اور محبت رکھنے والوں کو اس کا انتظار ہے۔