تحریر: امبریش کمار
ممتا بنرجی کی انتہائی خواہش اور جلدبازی نے تیسرے محاذ کی ہوا نکال دی ہے۔ غیر بی جے پی واد کی راہ پر چلتے ہوئے ممتا بنرجی نے اچانک اپنا موقف بدلا اور غیر کانگریسی محاذ کی طرف بڑھنے لگیں۔ وہ مودی کے سب سے پسندیدہ صنعت کار گوتم اڈانی سے نہ صرف ملاقات کی بلکہ ان کے ساتھ کی فوٹو بھی عام کی۔ اسی کےساتھ ہی مہاراشٹر کی سیاست کےساتھ ملک کی بھی سیاست گرما گئی۔ شیوسینا نے فوراً ہی ممتا بنرجی کی مہم کی ہوا نکال دی ۔
شیوسینا کے ترجمان میگزن کے ایگزیکٹیوایڈیٹر اور راجیہ سبھا ایم پی سنجے راوت کا تبصرہ پر غور کرنا چاہئے۔ سنجے راوت نے کہا کہ بغیر کانگریس پارٹی کے کوئی مورچہ نہیں بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ تیسرا – چوتھا محاذ کسی کام کا نہیں ہے۔ اس سے ووٹوں کی تقسیم ہی ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا کہ یوپی اے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ۔ سنجے راوت نے صاف کیا کہ یو پی اے کی صدر سونیا گاندھی اوران کی قیادت پر کسی نے سوال نہیں اٹھایا ۔
اس کے ساتھ ہی شیو سینا نے اپنے اخبار ’سامنا‘ میں بھی اس مسئلہ کو اٹھایا۔ سامنا میں لکھا گیا کہ ممتا کی سیاست کانگریس پر مبنی نہیں ہے۔ مغربی بنگال سے انہوں نے کانگریس، بائیں بازو اور بی جے پی کا صفایا کردیا۔ یہ سچ ہے، پھر بھی کانگریس کو قومی سیاست سے دور رکھ کر سیاست کرنا یعنی موجودہ فاشسٹ حکمرانی کے رجحان کو تقویت پہنچانے جیسا ہے۔ سامنا میں لکھا گیا ہے کہ کانگریس کا صفایا ہو، ایسا مودی اوربی جے پی کا ایجنڈا ہے ۔
سامنا کے اس تبصرہ کے ساتھ ہی شیوسینا نے ممتا بنرجی کے تیسرے محاذ کی پہل کو سبوتاژ کردیا ہے۔ اب ممتا بنرجی کے لیے دوبارہ یہ مشق شروع کرنا بہت آسان نہیں ہوگا۔
درحقیقت ممتا بنرجی کی انتہائی خواہش اور جلد بازی کی وجہ سے انہیں ایک جھٹکا لگا ہے۔ تاہم اس کے پیچھے ممتا بنرجی کے سیاسی مشیر پرشانت کشور کے کردار کو بھی دیکھا جا رہا ہے۔
پرشانت کشور اب کانگریس سے اپنی ناراضگی کی وجہ سے جس راستے پر ممتا بنرجی کو دھکیل رہے ہیں اس سے ممتا بنرجی کی شبیہ کو بھی نقصان پہنچا ہے ۔
کل تک وہ ملک میں مودی کے خلاف ایک بڑا چہرہ بن کر ابھری تھیں اور دو دن میں وہ مودی کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہیں۔ شیوسینا نے ممتا بنرجی کی اس سیاست کو کیوں بے نقاب کیا، اسے بھی سمجھنا چاہیے۔
درحقیقت شیو سینا نے اب اپنا ذہن بنا لیا ہے کہ وہ مہاراشٹر میں بی جے پی کے ساتھ نہیں جانا چاہتی اور اسے اپنی بنیاد مزید مضبوط کرنی ہے۔ یہ واضح ہے کہ انہوں نے مزید سیاست کے لیے یو پی اے کے ساتھ رہنے کا ذہن بنا لیا ہے۔ ایسے میں گوا پہنچی ممتا بنرجی کا جلد یا بدیر شیوسینا سے ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔ مہاراشٹر کے ساتھ ساتھ گوا کے مراٹھی لوگوں پر بھی شیوسینا کا اثر ہے۔ شیو سینا کی تشویش فطری تھی جب ممتا بنرجی نے پی کے کے چکر میں گوا میں سیاسی جوڑ توڑ کرنا شروع کیا۔
اور اس پورے کھیل میں بی جے پی کا بالواسطہ کردار بھی نظر آرہا ہے۔ ویسے بھی پی کے کی سیاست بی جے پی سے شروع ہوئی تھی اور وہ این ڈی اے کی سیاست کی دھار کو تیز کرتی رہی ہے۔ ان کا مستقبل کا لائحہ عمل ان کی کانگریس مخالف سیاست سے سمجھا جا سکتا ہے۔
دوسری بات یہ کہ اس پورے کھیل میں گوتم اڈانی کے کھلے پن کی وجہ سے دوسری پارٹیاں بھی مشکوک ہوگئیں۔ اڈانی بنگال میں کئی پروجیکٹوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ کوئی اس کی مخالفت بھی نہیں کر رہا۔ لیکن اڈانی نہ صرف ایک کارپوریٹ ہیں، ان کا ملک کی سیاست میں بالواسطہ مداخلت بھی ہے۔ مودی بھی انہی کے جہاز میں سوار ہو کر گجرات سے دہلی کے اقتدار تک پہنچے ہیں۔ ایسے میں یہ سوچنا کہ وہ صرف بنگال کی ترقی میں مدد کریں گے ،بہت حماقت ہوگی۔
آج کا کارپوریٹ صرف صنعت تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ یہ میڈیا سے لے کر اقتدار کی سیاست میں بھی صحیح طریقے سے مداخلت کرتا ہے۔ ورنہ کسان سال بھر ملک کی راجدھانی کی دہلیز پر بیٹھے رہتے۔ انہی کارپوریٹس کی مدد کے لیے ہی حکومت نے کسانوں سے بات کیے بغیر زراعت کا قانون لایا تھا۔ ایسے میں اڈانی اور ممتا کی تصویر کو پبلک کرنا صرف ایک تصویر نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی پیغام بھی ہے۔ شیو سینا نے سب سے پہلے اس پیغام کو پڑھا اور سمجھا۔ اب امید کی جا سکتی ہے کہ پی کے دوبارہ ایسی کوئی غلطی نہیں کریں گے، لیکن فی الحال، ممتا بنرجی کی قومی پرواز کی خواہش کچھ وقت کے لیے رکتی دکھائی دے رہی ہے۔ خاص طور پر اتر پردیش سمیت پانچ ریاستوں کے انتخابات تک۔
(بشکریہ: ستیہ ہندی )