تحریر:کلیم الحفیظ(نئی دہلی)
بھارت میں مسلمان تقریباً ایک ہزار سال سے آباد ہیں۔ایک طویل عرصے تک وہ حکمران رہے ۔اس کے باوجود ان کی سیاسی بصیرت اور سیاسی شعور پختہ نہیں ہے۔آزاد بھارت میں وہ سیاسی طور پر کوئی طاقت نہیں بن سکے۔کوششیں ہوئیں ،لیکن ناکام ہوگئیں۔رہنما اٹھے مگر اپنی تمام تر تگ و دو کے بعد بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔بعض تحریکیں بہت زور و شور سے اٹھیں لیکن صابن کے جھاگ کی مانند ثابت ہوئیں۔اب بھی کوششیں ہورہی ہیں۔لیکن امید کا سورج طلوع ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔جب کہ ہر جماعت ،ہر طبقہ،ملت کا ہر گروہ اس کی ضرورت گزرتے وقت کے ساتھ شدت سے محسوس کرتا رہا ہے۔ہر خادم ملت فکر مند ہے۔ہر چہرے پر تشویش ہے ۔پھر کیا وجہ ہے کہ مسلمان سیاسی حیثیت میں پہلے سے زیادہ بے وزن ہوگئے ہیں؟میری رائے میں اس کی چند وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ یہ ہے کہ بھارت کا عام مسلمان کبھی سیاسی نہیں رہا۔ مسلم بادشاہوں کے زمانے میں بھی عام مسلمان کا تعلق سلطنت کے سیاسی معاملات سے قطعاً نہیں تھا۔بادشاہت،سلطنت اور مملکت چند قبیلوں اور خاندانوں تک محدود تھی۔اسی کے افراد اپنی سیاسی چالیں چلتے تھے،وہی آپس میں بادشاہ بننے یا بادشاہ کو بے دخل کرنے کی سازشیں کرتے تھے۔بادشاہ کے توسیع پسندانہ نظریات اسے اطراف کی مملکتوں پر کبھی حملہ کرنے کے لیے اکساتے یا کبھی دفاعی جنگ پرمجبورکرتے ،بادشاہ کا زیادہ تر وقت میدان جنگ کی نظر ہوجاتا،یا اپنوں سے اپنی اور اپنی ریاست کی حفاظت میں گزرجاتا۔کوئی ووٹنگ سسٹم نہیں تھا۔ملک میں بادشاہت تھی،ریاستوں میں نواب تھے،علاقوں میں زمین دار تھے،عام جنتا کو سیاسی امور میں نہ دل چسپی تھی اور نہ ان کی ضرورت تھی۔برٹش راج میں بھی یہی نظام قائم رہا۔سیاست میں صرف حکمران بدلے تھے ،باقی سب کچھ جیسے چل رہا تھا ویسے ہی تھا،البتہ تعلیم کی فراوانی اور سائنسی ترقی نے عوام کو حالات سے باخبر ضرور کردیا تھا ۔
دوسری وجہ یہ رہی کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کا وہ طبقہ جس کے پاس علم بھی تھا اور کسی حد تک ان کا سیاسی شعور بھی بیدار ہوچکا تھاتقسیم ملک کے نتیجے میں پاکستان چلا گیا۔اس طرح بھارتی مسلمان اپنے بیدار مغز دماغوں سے محروم ہوگئے۔تیسری وجہ مسلمانوں میں صحیح تصور دین کا فقدان تھی۔بھارتی مسلمانوں کو مذہبی گروہ نے یہ تعلیم دی کہ سیاست اور حکومت دین میں نہیں ہے۔دین تو چلہ کشی،اورادو وظائف اور نماز روزے کا نام ہے ۔اس تصور نے ہماری عوام کو سیاست سے بالکل بے دخل کردیا۔وہ سیاست کو گناہ سمجھنے لگے،اس وقت کے سیاسی لیڈران اور مذہبی گروہ نے حصے داری کے بجائے تابعداری کی سیاست کو فروغ دیا ۔نیک لوگ مسجد اور خانقاہوں تک محدود ہوگئے۔مسجدوں میں سیاست کا ذکرکرنا تو دور کی بات ہے اگر معیشت اور تجارت کا ذکر بھی کسی نے کردیا تو قوم نے یہ کہہ کر روک دیا کہ یہ دنیا داری کی باتیں مسجد میں نہیں ہو سکتیں ،اس پر فتوے پوچھے جانے لگے کہ کیا مسجد کے لائوڈ اسپیکر سے کسی تجارتی شئی کی خریدو فروخت کا اعلان ہوسکتا ہے یا نہیں؟اس صورت حال نے عوام کو سیاست سے دور کردیا ۔اگر کچھ لوگ آئے بھی تو وہ دنیادار کہلائے،انھوں نے بھی کبھی اسے دینی فریضہ نہیں سمجھا۔جس نے سمجھا اس کو علماء کرام کے فتووں نے کافر بنادیا۔اب آپ ہی سوچیے پچھلے ستر سال سے جس قوم کو یہی پڑھایا جارہا ہووہ کس طرح سیاسی طور پر کوئی طاقت بن سکتی ہے۔
ایک وجہ یہ رہی کہ جو سیاسی محاذ بنے یا انفرادی طور پر کسی نے سیاسی جماعت بنائی ،اس سیاسی جماعت کے پاس کوئی ٹھوس سیاسی نظریہ نہیں تھا۔وہ وقتی طور پر کسی رد عمل کے نتیجے میں وجود میں آئیں ،کوئی دستور العمل،زمین پر کوئی تنظیی ڈھانچہ ان کے پاس نہیں تھا۔مثلاً1968میں عبدالجلیل فریدی مرحوم ؒ نے سیاسی تحریک آل انڈیا مسلم مجلس قائم کی ۔مگر یہ تحریک صرف اتر پردیش کی حد تک ہی سمٹ کر رہ گئی ۔اس سے پہلے 1959میں بھی بستی شہر میں مسلم زعماء کا ایک کنونشن ہواتھا۔اسی کونشن کے نتیجے کے طور پر آل انڈیا مسلم مجلس قائم ہوئی تھی ۔مگر بدقسمتی سے جو بھی کوششیں ہوئیں وہ ابتداء میں ہی انتشار کا شکار ہوگئیں۔ہماری بعض تنظیموں یا بعض قائدین نے کچھ تنظیموں کو اجتماعی کنونشنوں میں شرکت سے روک دیا۔اس طرح وہ کوششیں ناکام ہوگئیں۔1948میں انڈین مسلم لیگ نے جنم لیا۔1958 میں آندھرا پردیش میں مجلس اتحاد المسلمین دوبارہ منظر عام پر آئی،ممبئی میںحاجی مستان مرزا نے 1984 میں‘‘مسلم دلت سُرکشا مہا سنگھ’’بنائی۔1995 میں ڈاکٹر مسعود نے یوپی میں NLP نیشنل لوک تانترک پارٹی، سن 2001 میں مولانا توقیر رضا خان نے یوپی میں اتحاد ملت کونسل بنائی، سال 2005 میں مولانا بدرالدین اجمل نے آسام میں یو ڈی ایف اور سال 2008 میں ڈاکٹر ایوب نے یوپی میں پیس پارٹی کی تشکیل کی۔ان میںانڈین یونین مسلم لیگ، اے آئی ایم آئی ایم اور یوڈی ایف کی کارکردگی قابل ذکر رہی باقی سیاسی جماعتیں سیاسی کتاب کا ایک ورق بن کر رہ گئیں۔مذکورہ سیاسی پارٹیوں کے علاوہ ویلفیئر پارٹی آف انڈیا، علما کونسل اور سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا بھی مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی دور کرنے کے لیے موجود ہیں ۔لیکن یہ پارٹیاں ابھی تک عوام کے دل تک نہیں پہنچ سکی ہیں۔ان کی ناکامی نے ایک طرف عام مسلمانوں کو مایوس کیا اور دوسری طرف وہ قائدین بھی مایوس ہوگئے جو مخلصانہ جدو جہد کررہے تھے،اس کی وجہ اس کے سوا کیا ہے ۔کہ ہمارے پاس کوئی کوئی ٹھوس تنظیمی ڈھانچہ نہیں تھا،ہمارے اندر اجتماعی فیصلے لینے کا ہنر نہیں تھا،ہم اپنے علاوہ دوسروں پر اعتماد کرنے کی صفت سے محروم تھے ،ہم دل کی تنگی کا شکار تھے اور اپنے مسلک سے اختلاف کرنے والوں کو ساتھ لے کر چلنے والا وسیع دل نہیں رکھتے تھے۔
اندرونی اور داخلی اسباب کے علاوہ مسلم سیاسی جماعتوں کے سامنے مالی دشواریاں بھی رہیں،سیکولر پارٹیوں کے مسلم لیڈران بھی ان کی راہ میں مشکلات کھڑی کرتے رہے ہیں،مسلمانوں کا تعلیم یافتہ اور سرکاری مراعات حاصل کرنے والا طبقہ نے بھی اپنے مفادات کی خاطر کسی مسلم سیاسی جماعت کو ابھرنے نہیں دیا۔دوسری طرف نام نہاد سیکولر پارٹیوں نے جس میں کانگریس پیش پیش رہی کبھی مسلم لیڈر شپ کو مستحکم نہیں ہونے دیا کیوں کہ اس سے ان کے وجود کو خطرہ لاحق تھا۔سنگھ اور اس کی درجنوں ذیلی تنظیموں نے اگرچے مسلم انتشار میں تو بڑا رول ادا نہیں کیا لیکن انھوں نے مذہبی منافرت کو ہوا دے کر اکثریتی طبقے کے دل میں مسلمانوں کی ذات اور ان سے وابستہ ہر چیز سے نفرت پیدا کردی اور غیر مسلم جو کبھی مسلمانوں کے ساتھ تعاون کرتے تھے اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لیے بھی آواز اٹھاتے تھے اس سے محروم کردیا۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا مسلم ملت آئندہ بھی اسی طرح تابعداری کی سیاست کرے گی یا حصے داری کی سیاست کی طرف قدم بڑھائے گی ۔ حصے داری کی سیاست کا راستا اپنی سیاسی جماعت سے ہی ہوکر گزرتا ہے۔اب بھی وقت ہے کہ ملت سیاست کے بارے میں اپنے نظریہ کی اصلاح کرے،اسے دین کا جز سمجھے ،ملک میں اپنی آبادی کے تناسب سے وسائل کے استعمال کی بات کرے،گمراہ کن پروپیگنڈے کو نظر انداز کرے،جس ریاست اور جس علاقے میں جومسلم سیاسی جماعت مضبوط ہو اس کا تعاون کرے ،اپنے رہنمائوں پر اعتماد کرے اور قائدین بھی اپنے ذاتی مفادات کے بجائے ملت اور ملک کے مفاد میں ایثار و قربانی کا مظاہرہ کریں۔اس وقت مسلمانوں کی اکثریت مسلم سیاسی رہنمائوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہی ہے ،ملکی سیاست میں مسلمان انتہائی نازک دور میں ہیں ،ابھی بھارتی آئین میں اپنی حصے داری کا موقع ہے قبل اس کے کہ یہ موقع ہاتھ سے نکل جائے ہمیں موقع کا فائدہ اٹھانا چاہئے ورنہ تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)