نئی دہلی:آر کے بیورو
لوک سبھا انتخابات کے بعد سے مسلسل الیکشن ہارنے والی گرینڈ اولڈ کانگریس کا بحران ختم نہیں ہو رہا ہے۔ ایک طرف انڈیا اتحادکی پارٹیاں کانگریس سے الگ پر تلی ہیں۔ ساتھ ہی پارٹی کے اندر غیر مطمئن لیڈروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ کانگریس کے اندر جن لیڈروں کی ناراضگی کی خبر ہے، ان میں تین سابق وزیر اعلیٰ ہیں۔جس طرح سے کانگریس کے اندر لیڈروں کی ناراضگی کی خبریں سامنے آ رہی ہیں اس سے کہا جا رہا ہے کہ پارٹی میں G-23 کا دھڑا پھر سے ابھر سکتا ہے۔ درحقیقت، 2019 کے انتخابات کے بعد کانگریس کے 23 لیڈروں نے ایک گروپ بنایا تھا، جسے پارٹی کے اندر اختلاف کرنے والوں کا گروپ کہا جاتا تھا۔ اس گروپ کی وجہ سے کانگریس ہائی کمان کو کئی مواقع پر رسوا ہونا پڑا۔ تاہم، یہ دھڑا 2022 کے آخر میں منتشر ہو گیا ۔ اب پھر وہی صورتحال پیدا ہونے لگی ہے مثال کے طور پر پرتھوی راج چوان مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ ہیں۔ وہ منموہن حکومت کے دوران وزیر اعظم کے دفتر میں وزیر تھے۔ 2019 میں جب کانگریس کے اندر G-23 کا قیام عمل میں آیا تو پرتھوی راج بھی اس میں شامل ہو گئے۔ چوان نے کئی میٹنگوں میں بھی شرکت کی۔ G-23 کے خاتمے کے بعد، وہ مہاراشٹر کی سیاست میں سرگرم ہو گئے۔ اسمبلی انتخابات میں، پرتھوی راج نے الیکشن لڑا ، لیکن بی جے پی کے اتل بابا بھوسلے نے انہیں شکست دی۔ اسمبلی میں شکست کے بعد پرتھوی راج سیاسی بازآباد کاری میں لگے ہوئے ہیں۔ اس دوران دہلی انتخابات کو لے کر ان کا بیان سرخیوں میں ہے۔پرتھوی راج نے کہا ہے کہ دہلی میں عام آدمی پارٹی کے ساتھ اتحاد ہوتا تو بہتر ہوتا۔ دہلی میں صرف اروند کیجریوال ہی الیکشن جیت رہے ہیں۔ ان کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب پارٹی دہلی میں مضبوطی سے الیکشن لڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔کانگریس نے دہلی کے لیے 5 ضمانتیں لانے کا اعلان کیا ہے۔ وہیں کانگریس نے اپنے بڑے لیڈروں کو عام آدمی پارٹی کے خلاف میدان میں اتارا ہے۔ ایسے میں کہا جا رہا ہے کہ چوان کا یہ بیان پارٹی کی کوششوں کو سبوتاژ کر سکتا ہے۔
ہریانہ کے سابق وزیر اعلی بھوپندر سنگھ ہڈا کی ناراضگی کی بھی خبر ہے۔ ہریانہ انتخابات ہوئے دو ماہ گزر چکے ہیں، لیکن اب تک وہاں نہ تو اپوزیشن لیڈر اور نہ ہی ریاستی صدر کی تقرری ہوئی ہے۔ ہریانہ کے بعد جھارکھنڈ میں انتخابات ہوئے جہاں پارٹی دوہرے ہندسے میں سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ پارٹی نے قائد حزب اختلاف سے لے کر وزیر کے عہدے تک ہر چیز کو حتمی شکل دے دی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ہڈا دوبارہ اپنے لیے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ مانگ رہے ہیں۔ ہڈا نے اکتوبر 2024 میں اپنی دہلی کی رہائش گاہ پر ایم ایل ایز کے ساتھ طاقت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی کانگریس اب ہریانہ کانگریس کی ذمہ داری 77 سالہ ہڈا کی جگہ کسی نئے چہرے کو دینے کے موڈ میں ہے۔ پچھلے مہینے جب راہل سے کانگریس ہیڈکوارٹر میں ہریانہ کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو انہوں نے سیدھا جواب دینے کے بجائے ہنسی اور دوسرے گستاخانہ طنز کے ساتھ اس معاملے کو ختم کردیا۔ہڈا جی-23 کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ 2022 کے بعد پرینکا کی پہل پر ہڈا کو G-23 سے الگ کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد کانگریس نے ہریانہ کی پوری کمان ہڈا کو سونپ دی۔ ہڈا کے اصرار پر ہی کانگریس نے اسمبلی انتخابات میں 90 میں سے تقریباً 72 ٹکٹ دیے تھے۔اور اس کا خمیازہ بھی بھگتا ہریانہ میں بی جے پی حکومت کے خلاف اینٹی انکمبینسی کے باوجود کانگری نہیں جیت سکی۔اسی طرح ہماچل سے آنند شرما خاموش ہیں۔
حالانکہ سابق مرکزی وزیر آنند شرما سوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہیں لیکن جب کانگریس کسی بھی معاملے پر جارح ہوتی ہے تو شرما خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ حال ہی میں جب دہلی میں بی جے پی لیڈروں نے پرینکا کے بارے میں متنازعہ تبصرہ کیا توپارٹی کے بڑے چھوٹے لیڈر اس کے خلاف سامنے آئے۔
جبکہ آنند شرما اس پورے معاملے پر خاموش رہے۔ آنند شرما نے بھی بزنس مین گوتم اڈانی کے معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ شرما کانگریس G-23 کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ انہیں بھوپندر سنگھ ہڈا کا قریبی سمجھا جاتا ہے۔ جب ہڈا کی بحالی ہوئی تو شرما کو بھی امیدیں تھیں، لیکن پارٹی نے انہیں کوئی بڑا عہدہ نہیں دیا۔
جب کانگریس میں ایک گروپ ابھر رہا تھا تو اسے نقصان پہنچانے میں کمل ناتھ سب سے آگے تھے۔ اس وقت مدھیہ پردیش کی کمان کمل ناتھ کے پاس تھی۔ کمل ناتھ نے کئی بار لیڈروں سے ملاقاتیں کیں اور G-23 کو ختم کرنے کے بیانات دیئے۔ اب خود کمل ناتھ ناراض بتائے جا رہے ہیں۔ حال ہی میں بھوپال میں ایک میٹنگ میں کمل ناتھ نے کھل کر اپنے غصے کا اظہار کیا۔ کمل ناتھ نےریاستی قائدین سے کہا کہ انہیں یہاں کی ملاقاتوں کے بارے میں بھی اطلاع نہیں دی جاتی ہے۔،کانگریس نے ان کی بدولت ہی مدھیہ پردیش ہاراتھا بہر حال آنے والے دن کانگریس کے لیے آزمائش بھرے یوں گے