تجزیاتی رپورٹ:مرلی کرشنن
بھارت کے سیکرٹری خارجہ نے حال ہی میں دبئی میں کابل حکومت کے قائم مقام وزیر خارجہ سے ملاقات کی۔ طالبان حکومت کے ساتھ بھارت کے دوطرفہ سفارتی تعلقات میں تیزی کوماہرین انتہا پسند طالبان کی سفارتی حوصلہ افزائی قرار دے رہے ہیں وہیں اس ملاقات کو شدت پسند گروپ طالبان کے لیے سفارتی سطح پر ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
طالبان کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق، مذکورہ ملاقات میں افغانستان میں سلامتی کے خدشات، بھارت کی جانب سے ترقیاتی منصوبوں میں شامل ہونے اور انسانی امداد فراہم کرنے کی ضرورت، اور افغانستان کی جانب سے ایران میں چاہ بہار بندرگاہ کے استعمال سے تجارت کو جیسے موضوعات کا احاطہ کیا گیا۔بیان میں مزید کہا گیا، ”افغانستان کی متوازن اور معیشت پر مرکوز خارجہ پالیسی کے مطابق، امارت اسلامیہ کا مقصد ایک اہم علاقائی اور اقتصادی شراکت دار کے طور پر بھارت کے ساتھ سیاسی اور اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرنا ہے۔‘‘
اگست 2021ء ء میں کابل پر قبضے کے بعد سے یہ ملاقات بھارت اور طالبان کے درمیان اعلیٰ ترین سطح کی پہلی ملاقات تھی۔بھارت نے افغاستان کی طرف سے درخواست کے جواب میں صحت کے شعبے اور افغان پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے مزید مادی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ نیز دونوں فریقوں نے کھیل کے شعبے خاص طور سے کرکٹ کو باہمی دلچسپی کی بنیاد پر فروغ دینے کے لیے تعاون و مضبوط بنانے کا فیصلہ کیا ہے
بھارت کی افغانستان امور کی ایک ماہر شانتی میریٹ ڈی سوزا حالیہ سفارتی اور سیاسی پیش رفت کے بارے میں اس امر سے اتفاق کرتی ہیں کہ یہ ملاقات ایک اہم قدم ہے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ بھارت سفارتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے کام کر رہا ہے جس سے وہ طالبان کے ساتھ جامع طور پر بات چیت کر سکے گا۔
منترایا انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجک اسٹڈیز کی بانی ڈی سوزا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”بھارت کی پالیسی کا مقصد اپنا کھویا ہوا اثر و رسوخ دوبارہ حاصل کرنا اور کابل میں اپنے روابط بحال کرنا ہے
انہوں نے مزید کہا،”اس کے علاوہ، بھارت کا مقصد ایک ایسے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بحال کرنا ہے جہاں چین نے اگست 2021 ء ء سے اپنی موجودگی میں نمایاں اضافہ کیا ہے۔‘‘
افغانستان میں تعینات رہنے والے ایک سابق بھارتی سفیر گوتم مکوپادھیے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت اپنے سفارتی مؤقف کا از سر نو جائزہ لے رہا ہے اور طالبان کی موجودہ قیادت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ ان کے بقول، ”بھارت طالبان کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے لیے کسی دباؤ میں نہیں ہے اور ایسا لگتا ہے کہ خود افغان طالبان اندرونی تناؤ کا شکار ہیں جو خواتین پر جبر اور سختی کرنے، انہیں ان کے کسی بھی حق سے محروم رکھنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘گوتم مکوپادھیے کے بقول، ”بھارت اور افغان حکومت کے مابین تعلقات میں فروغ کی اور بھی اہم وجوہات ہیں جن میں تجارت، تاریخی تعلقات، چاہ بہار اور بین الاقوامی ٹرانسپورٹ کوریڈور اور چین شامل ہیں۔‘‘
•••پاک افغان کشیدہ تعلقات بھارت کے مفاد میں
پاکستان میں بھارت کے سابق خصوصی مندوب اجے بساریہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بھارت کی طالبان کے ساتھ سفارتی مصروفیات ایک بڑے معاہدے کا حصہ ہیں۔ بھارت مطالبہ کرتا ہے کہ افغان سرزمین کسی بھارت مخالف سرگرمی کے لیے استعمال کرنے نہ دی جائے اور بدلے میں بھارت افغانستان کے لیے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر اپنی حمایت کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ اجے بساریہ کے بقول، ”اس کے برعکس پاکستان سٹریٹجک گہرائی اور اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے افغانستان کو ایک اہم جغرافیائی خطے کے طور پر دیکھتا ہے، خاص طور پر 2021 ء ء میں امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعدپاکستان میں بھارت کے سابق خصوصی مندوب اجے بساریہ پاکستان کی علاقائی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”یہ سب ان ناقص پالیسیوں کا نتیجہ ہیں جو پاکستان نے اپنے پڑوسیوں کے ساتھ اختیار کی ہیں۔‘‘بساریہ پاکستان کی پالیسیوں کو ”سمجھدار سفارتی اہداف کے مقابلے میں تنگ فوجی مقاصد کو ترجیح دینے والی پالیسیاں قرار دیتے ہیں۔‘‘(سورس:ڈی ڈبلیو)