تحریر: محمد زبیر خان
’سعودی عرب کا ملک ایک ہی جماعت اور راستے پر چل رہا تھا کہ باہر سے کچھ جماعتیں آئیں، اس ایک جماعت اور ایک مذہب پر چلنے والے لوگوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی تاکہ ان کا (سعودی شہریوں) اتحاد پارہ پارہ ہو جائے۔ ان معروف جماعتوں میں سے ایک تبلیغی جماعت بھی ہے جو اپنے آپ کو اس ملک (سعودی عرب) میں احباب کے نام سے پکارتے ہیں۔‘
’اس جماعت کی اصل ہند (برصغیر) میں ہے۔ جماعت تبلیغ پیغمبر اسلام کے کئی طریقوں کے مخالف چلتے ہیں۔ یہ جماعت بغیر علم کے دعوت کے لیے نکلتی ہے۔ یہ اللہ اور پیغمبر اسلام کے طریقے کے برخلاف ہے۔ یہ وہ جماعت ہے جس سے دہشت گرد گروپ بھی پیدا ہوئے۔ ان کے ساتھ چلنے والے لوگ علم کی کمی کا شکار ہو کر تکفیری جماعتوں کا بھی شکار ہوجاتے ہیں۔‘
’اسی وجہ سے دہشت گرد جماعتوں کے لوگ جو کہ یہاں (سعودی عرب) کی جیلوں میں بند ہیں، ان کے بارے میں تفتیش کی گئی تو پتا چلا کہ یہ پہلے تبلیغی جماعت میں شامل تھے۔ اس ملک (سعودی عرب) کی فتویٰ دینے والی کمیٹی نے قرار دیا ہے کہ اس جماعت (تبلیغی جماعت یا احباب) کے ساتھ شریک ہونا جائز نہیں ہے۔‘
’ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کی دعوت کو قبول نہ کریں۔ یہ جماعت اور اس جیسی جماعتیں ہمارے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں گی۔ یہ کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔‘
یہ خطبہ سعودی عرب کی ایک بڑی جامع مسجد میں جمعے کے روز دیا گیا تھا۔ اس سے ملتے جلتے خطبے تقریباً تمام ہی جامع مساجد میں سعودی عرب کی وزارتِ مذہبی اُمور کی ہدایت پر دیے گئے ہیں۔
سعودی عرب کے وزیرِ مذہبی اُمور ڈاکٹر شیخ عبداللطیف بن عبدالعزیز آل شیخ نے اپنی ایک ٹویٹ میں بھی سعودی عرب میں جمعے کے خطبے میں تبلیغی جماعت کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی اپیل کی تھی۔
اس پر پاکستان میں تبلیغی جماعت کے سرکردہ رہنماؤں کا مؤقف لینے کے لیے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے اس پر کوئی بھی بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
تاہم دارالعلوم دیوبندنے اس پر اپنا مذمتی بیان جاری کرتے ہوئے تبلیغی جماعت پر عائد کیے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔
سعودی عرب کی وزارت مذہبی امور میں فرائض انجام دینے والے ایک ذریعے نے بتایا ہے کہ تبلیغی جماعت پر پابندی کوئی نئی نہیں ہے بلکہ حالیہ ٹویٹ اور خطبات کی ہدایت درحقیت پرانی پابندی کا اعادہ ہے۔
سعودی عرب میں تبلیغی جماعت پر پابندی کا معاملہ کیا ہے؟
سعودی وزارتِ مذہبی اُمور میں طویل عرصے تک خدمات انجام دینے والے ایک اہلکار کے مطابق تبلیغی جماعت پر پابندی کے ماجرے کو سمجھنے سے پہلے سعودی عرب میں جاری نظام کو سمجھنا ہو گا جو مختصراً یہ ہے کہ سعودی عرب میں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو قانون کے تحت کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔
اسی طرح اب اگر سعودی عرب میں داخلے اور کام کی اجازت یعنی ویزا اور اقامہ کی شرائط کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سعودی عرب میں دعوت و تبلیغ کے لیے داخلے کی اجازت نہیں ہے یعنی اس طرح کا کوئی ویزہ یا اقامہ موجود ہی نہیں ہے۔
اب اگر کوئی شخص ڈاکٹر کے ویزے یا اقامے پر سعودی عرب میں داخل ہوتا ہے تو صرف اپنا کام یعنی جس ہسپتال وغیرہ میں اس کو کام کی اجازت دی گئی ہے، وہاں پر صرف طب کے شعبے سے متعلق ہی کام کرے گا، اس کو تبلیغ یا دعوت کا کام کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ دعوت و تبلیغ کے لیے حکومت کی جانب سے ادارے اور لوگ مقرر ہیں۔
اسی طرح اگر کسی عالم یا مترجم کو بنگلہ دیش، افغانستان، افریقہ، انڈیا یا پاکستان وغیرہ سے اقامہ یا ویزا دیا جاتا ہے تو وہ مترجم اور عالم ہی رہے گا۔ اس کو کسی کا علاج معالجہ یا دم درود کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر وہ اپنے اقامے یا ویزا میں دیے گئے کسی بھی کام سے تجاوز یا اس سے ہٹ کر کچھ کرے گا تو یہ قانونی طور پر جرم ہے۔
تبلیغی جماعت کا آغاز انڈیا سے ہوا تھا۔ ساری دنیا میں اس کو تبلیغی جماعت ہی کے نام سے پکارا جاتا ہے مگر اس کو سعودی عرب میں احباب کے نام سے پکارا جاتا ہے کیونکہ سعودی عرب میں تبلیغی جماعت کے نام سے کام کرنے کی کوئی اجازت نہیں ہے۔
احباب کا نام بھی غالباً حکام کی نظر سے بچنے کے لیے استعمال کیا گیا کیونکہ یہ عام بول چال میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
دنیا بھر سے تبلیغی جماعت کے لوگ سعودی عرب میں داخلے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتے ہیں۔ عموماً ان کی وہ جماعتیں جو کہ ایک ایک سال کے لیے مختلف ممالک کے دوروں پر ہوتی ہیں، وہ عمرہ، حج یا سیاحت کا ویزہ حاصل کرتے ہیں۔
اس ویزے کی بنیاد پر وہ دو یا تین ماہ یا چند دن سعودی عرب کے مختلف شہریوں میں قیام کر کے تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور ان لوگوں کو خلیجی ریاستوں کے کچھ لوگوں کا بھی تعاون حاصل ہوتا ہے۔
ان اطلاعات پر چند سال قبل سعودی محکمہ داخلہ اور وزارت مذہبی امور نے سخت کارروائی کی تھی اور ان کے خلاف قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فعال کیا گیا تھا۔
اس کے نتیجے میں کئی لوگوں کو تبلیغ کا کام کرتے ہوئے پکڑا گیا اور ان کو سعودی عرب کے قوانین کے مطابق سزائیں دی گئی تھیں۔ اسی طرح جب دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ چھڑی تو دیکھا گیا کہ کئی سعودی جن کی زیادہ تعداد پاکستان اور افغانستان گئی تھی وہ تبلیغی جماعت کی آڑ لے کر گئی تھی۔
اس کے بعد سعودی شہریوں پر بھی یہ پابندی عائد کی گئی اور پاکستان کے سفارتی حکام سے کہا گیا کہ وہ تبلیغ کے لیے سعودی شہریوں کو ویزے نہ دے، جس پر اب بھی عمل در آمد جاری ہے۔
ان تمام اُمور پر بات کرنے کے لیے تبلیغی جماعت کے لوگوں کے ساتھ رابطہ قائم کیا گیا مگر انھوں نے اس سمیت ہر موضوع پر بات کرنے سے انکار کیا ہے۔
مذہبی جماعتوں پر کئی برسوں سے رپورٹنگ کرنے والے کراچی سے صحافی عظمت خان کا کہنا تھا تبلیغی جماعت کے چاہے اپنے ارکان قتل کر دیے جائیں یا ان کے لوگوں پر کسی واقعے میں ملوث ہونے کا الزام ہو، جماعت اس پر بات نہیں کرتی اور صرف اپنا کام جاری رکھتی ہے۔
تبلیغی جماعت کرتی کیا ہے؟
عظمت خان کے مطابق بظاہر تبلیغی جماعت کا کوئی بھی کام خفیہ یا پوشیدہ نہیں ہے۔ یہ لوگ سیاست میں ملوث نہیں ہوتے، اس کے سرکردہ لوگ کسی بھی مذہبی یا سیاسی جماعت کے کارکن یا رہنما نہیں ہوتے، کوئی بھی سیاسی، معاشی یا معاشرتی ایجنڈا نہیں رکھتے اور ہر ایک کو اپنی صفوں میں قبول کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اپنے ساتھ شامل ہونے والوں میں سے کسی سے بھی نہیں پوچھتے کہ وہ کیوں ان کی صف میں شامل ہوئے ہیں، مقاصد کیا ہیں، بس ان کے ساتھ جو بھی آ جائے یہ اس کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یہ بظاہر اسلام کے معاملات کی بات کرتے ہیں جس میں لوگوں کو کلمہ، نماز، عربی میں دعائیں اور قران سکھانا شامل ہوتا ہے۔
عظمت خان کا کہنا تھا کہ پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان، انڈیا، افریقہ اور حتیٰ کہ برطانیہ، امریکہ میں بھی چند برسوں کے دوران تبلیغی جماعت بہت مقبول ہوئی ہے جس کی بظاہر وجہ ان کا ڈھیلا ڈھالا سا نظم و ضبط اور خود سے منسلک لوگوں کے حوالے سے کوئی بھی ذمے داری قبول نہ کرنا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران کئی ایسے واقعات رپورٹ ہوئے جن میں کہا گیا کہ کچھ دہشت گردوں نے ان کی صفوں میں پناہ حاصل کی تھی، مگر تبلیغی جماعت نے کبھی بھی اس کی ذمے داری قبول نہیں کی اور پاکستان کی حد تک کبھی بھی ریاست یا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے تبلیغی جماعت کو اس کا قصور وار نہیں ٹھہرایا۔
سعودی عرب کا سخت ردِ عمل کیوں؟
مذہبی جماعتوں پر طویل عرصے سے رپورٹنگ کرنے والے صحافی سبوخ سید کے مطابق ایسی اطلاعات آتی رہی ہیں کہ سعودی عرب میں دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں القاعدہ اور الاخوان المسلمون وغیرہ کے لوگوں کے علاوہ فرقہ واریت میں ملوث تنظیموں کے لوگوں نے بھی کسی نہ کسی طرح تبلیغی جماعت کی صفوں میں شامل ہو کر اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ رائے ہمیشہ سے رہی ہے کہ سعودی عرب میں پاکستان اور دیگر ممالک کی تبلیغی جماعت کے مقابلے میں انڈیا کی تبلیغی جماعت کا زیادہ عمل دخل ہے۔ انڈیا میں بھی گذشتہ دنوں تبلیغی جماعت پر پابندی عائد کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات موجود ہیں جن میں پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے بظاہر تبلیغی جماعت کے ساتھ مصروف عمل لوگوں کو تبلیغ کے دوران گرفتار کیا تھا، جن میں کچھ سعودی شہری اور دیگر بھی شامل تھے جس کے بعد سے سعودی شہریوں کو تبلیغ کے نام پر کچھ عرصے سے ویزے جاری نہیں کیے جا رہے ہیں اور اس کی وجہ سعودی حکومت بھی ہو سکتی ہے۔
سبوخ سید کے مطابق بظاہر ایسے لگتا ہے کہ سعودی حکومت کو یہ شبہ ہے کہ اپنے ملک میں احباب کے نام سے مشہور تبلیغی جماعت کی صفوں میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ شامل ہیں جو موجودہ سعودی فرمانروا کے خلاف شدید جذبات رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس طرح شاید انھیں یہ بھی شبہ ہے کہ ایسی تنظیمیں جن پر سعودی عرب نے پابندی عائد کر رکھی ہے، وہ تبلیغی جماعت یا احباب کے نام سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں، جس سے سعودی عرب کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔
سبوخ سید کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ سعودی عرب کے نظام کے تحت اسلام کی تشریح، اسلامی قوانین، دعوت و تبلیغ اور اسلامی معاملات میں فتویٰ وغیرہ دینے جیسے کاموں کی کسی بھی جماعت کو اجازت نہیں ہے بلکہ یہ سارے کام حکومت اپنی مختلف وزارتوں کی وساطت سے خود کرتی ہے۔ اس صورتحال میں بھی وہاں پر تبلیغی جماعت یا احباب کے کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں بنتی۔
ان کا کہنا تھا کہ سعودی حکام کی جانب سے حالیہ ٹویٹ اور جمعے کے خطبات میں تبلیغی جماعت کے حوالے سے ایک بار پھر بات کرنے کا مطلب تبلیغی جماعت یا احباب کے لوگوں کو وارننگ جاری کرنا ہو سکتا ہے جس میں ممکنہ طور پر اگر کوئی سرگرمی سعودی حکومت کے نوٹس میں آئی تو اس پر شدید کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔
سبوخ سید کے خیال میں حکومت کے نزدیک ممکنہ طور پر تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں سے قدامت پسند ماحول پیدا ہو سکتا ہے اور دوبارہ وارننگ جاری کرنے کا مقصد قدامت پسند روایات کو ترک کرنے کی پالیسی بھی ہو سکتی ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی ، یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)