نئی دہلی:( جاوید اختر،ڈی ڈبلیو)
بھارت اور بالخصوص شمالی بھارت میں عام انتخابات سے لے کر اسمبلی حتیٰ کہ بلدیاتی انتخابات بھی قائداعظم پاکستان محمد علی جناح کے نام کے بغیر مکمل نہیں ہوپاتے ہیں۔ بیشتر سیاسی رہنما ووٹروں کو اپنی طرف راغب کرنے اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے جناح اور پاکستان کا نام لینا ضروری اور کامیابی کی کلید سمجھتے ہیں۔
بھارت میں سیاسی اعتبار سے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ریاست اترپردیش میں اگلے برس اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ اس الیکشن کے نتائج سن 2024میں ہونے والے عام انتخابات پر لازماً پڑیں گے۔ ایسے میں ہر آئے دن کوئی نہ کوئی رہنما جناح کی راگ ضرور الاپتا ہے۔
تازہ ترین واقعہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کی سابق حلیف جماعت سہیل دیو بھارتی سماج پارٹی کے قومی صدر اوم پرکاش راجبھر کا ہے۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر محمد علی جناح کو بھارت کا وزیر اعظم بنادیا جاتا تو اس ملک کے دو ٹکڑے نہیں ہوتے اور سابق بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی سے لے کر لال کرشن اڈوانی تک جناح کی تعریف کرچکے ہیں۔
‘ راجبھر کے بیان پر تنازعہ کھڑا ہوگیا ہے۔ بی جے پی نے ان کے بیان کی مذمت کی ہے اور جناح کا نام لینے پر حسب روایت معافی مانگنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ یہ حربہ ووٹروں کو حقیقی مسائل سے بھٹکانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
بھارتی صحافی اور روزنامہ جدید خبر کے ایڈیٹر معصوم مرادآبادی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،’’ اس ملک کے اندر ایک ایسا طبقہ ہے جس کی سوچ بہت فرسودہ اورفرقہ وارانہ ہے۔ محمد علی جناح تاریخ کا حصہ ہیں۔ اور جدوجہد آزادی میں جناح کے کردار کی وجہ سے ہی جب اڈوانی جی کراچی جاتے ہیں تو ان کے مزار پر گلہائے عقیدت پیش کرتے ہیں اور جسونت سنگھ جیسا بی جے پی کا لیڈر جناح پر پوری کتاب لکھ ڈالتا ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ’’ دراصل بی جے پی میں بڑا تضاد ہے۔ اگر محمد علی جناح اتنے ہی برے ہیں تو اڈوانی جی اور جسونت سنگھ حتٰی کہ اٹل بہاری واجپئی جیسے رہنماؤں کے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔ دراصل جب آپ انڈیا کی جدوجہد آزادی کی بات کرتے ہیں تو جناح گاندھی کے ساتھ بھی کھڑے نظر آتے ہیں، نہرو، پٹیل اور مولانا آزاد کے ساتھ بھی کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ آپ تاریخ کو مٹا تونہیں سکتے۔‘‘
معصوم مرادآبادی کے مطابق جناح کے خلاف بولنے والے لوگ وہ ہیں’’ جو نفرت کا کاروبار کرتے ہیں اور اس کو منفی پس منظر میں پیش کرکے ایسے لوگوں کا ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں جن کی فکر انہوں نے فرقہ وارانہ بنادی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ بھارت میں ووٹروں کا ایک ایسا طبقہ تو بہرحال پیدا ہوہی گیا ہے یا قصداً پیدا کیا گیا ہے جو ملک کے تمام مسائل کے لیے محمد علی جناح کو ذمہ دار سمجھتا ہے۔
چند دنوں قبل ہی اترپردیش کے سابق وزیر اعلی اور اپوزیشن سماج وادی پارٹی کے رہنما اکھلیش یادو نے جدوجہد آزادی کے دوران جب گاندھی، نہرو، پٹیل اور جناح کو ایک ہی صف میں رکھنے کے متعلق بیان دیا تھا تو زبردست ہنگامہ کھڑا ہوگیا تھا۔ یادو نے اپنی تقریر میں کہا تھا،”
گاندھی، نہرو، پٹیل اور جناح نے ایک ہی ادارے میں بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے (انڈیاکو) آزادی دلانے میں مدد کی اور اپنی جدوجہد سے کبھی پیچھے نہیں ہٹے۔‘‘
اترپردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے یادو کے اس بیان کو’ طالبانی ذہنیت کی سوچ‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا، ’’یہ انتہائی شرمناک ہے، یادو جی جناح کا موازنہ سردار پٹیل سے کررہے ہیں۔ جناح نے ملک کو تقسیم کرایا جبکہ سردار پٹیل نے قوم کو متحد کیا۔‘‘
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے بھی یادو کے بیان کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا تھا کہ جن مسلمانوں نے تقسیم ملک کے بعد بھی بھارت میں رہنے کو ترجیح دی انہوں نے دراصل جناح کے دو قومی نظریے کی تردید کی ہے۔
سیاسی تجزیہ کار معصوم مرادآبادی کے مطابق جناح یا پاکستان کے حوالے سے جس طرح کی سوچ بھارت میں پیدا کردی گئی ہے وہ ایک فسطائی سوچ ہے۔ یہ کوئی جمہوری سوچ نہیں ہے۔ اور اس سے جمہوریت کو بہت نقصان پہنچ رہا ہے۔” ہم دعوٰی تو یہ کرتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہیں لیکن اس طرح کی باتیں جمہوریت کے بنیادی اساس کو نقصان پہنچاتی ہیں۔‘‘
خیال رہے کہ بی جے پی کے سینئر رہنما اڈوانی نے سن 2005 میں دورہ پاکستان کے دوران محمد علی جناح کے مزار پر حاضری دی تھی اور انہیں ‘سیکولررہنما‘ قراردیا تھا۔ پاکستان سے واپس لوٹنے پر خود بی جے پی اور آرایس ایس نے ان کے خلاف انتہائی سخت بیانات دیے تھے جس کے بعد انہیں پارٹی صدر کے عہدے سے استعفٰی دینا پڑا تھا۔