تحریر:مسعود جاوید:- تدریس یعنی پڑھانا ایک ہنر اور فن ہے۔ اس کے لئے صرف پڑھا ہوا ہونا کافی نہیں ہوتا ہے۔
کالج سے ہر سال ہزاروں گریجویٹس نکلتے ہیں وہ سب تعلیم یافتہ تو ہوتے ہیں مگر کسی میدان میں کام کے لئے تربیت یافتہ نہیں ہوتے ۔ کسی میدان میں کام کرنے کے لئے خصوصی کورس ڈپلومہ یا ڈگری حاصل کرنی ہوتی ہے۔ اس کمی کی تلافی کے لئے ماہرین تعلیم نے ریسرچ کیا اور ہر فن مولا jack of all trades master of none کا نظام ختم کرتے ہوئے تخصص کا نظام قائم کیا۔ چنانچہ بچے کو آگے چل کر کیا بننا ہے اس کا فیصلہ اسے نویں کلاس میں ہی کرنا ہے تاکہ نویں کلاس سے ہی اس کا اختصاص شروع ہو جاۓ۔ مثال کے طور پر اگر اس کا رجحان میڈیکل ہے تو نویں درجہ سے وہ فزکس کیمسٹری بایولوجی پڑھے گا میتھمیٹکس نہیں اور اگر انجنیئر بننا ہے تو فزکس کیمسٹری میتھمیٹکس پڑھے گا بایولوجی نہیں۔
عصری دانشگاہوں نے یہ ضرورت محسوس کی کہ مختلف درجات مڈل اسکول سے لے کر ہائی اسکول تک بچوں کو تعلیم دینے کے لئے الگ الگ تخصص کے تربیت یافتہ معلمین کی ضرورت ہے۔ اس لئے انہوں نے ٹیچر ٹریننگ کالج قائم کیا جہاں انگریزی ہندی اردو سائنس تاریخ جغرافیہ وغیرہ کی تعلیم دینے کے لئے معلمین کی تربیت کی جاتی ہے۔ بچوں کی نفسیات اور رجحانات کو سمجھنے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ میدانی تجربے اور ورک شاپ کے ذریعے مختلف صورتحال سے واقف کرایا جاتا ہے۔ عرب ممالک بھی اس نظام کے سخت پابند ہیں :
أهـداف كليـة التربية. إعداد معلمين ذوي كفاءة عالية، ملتزمين يكرّسون طاقاتهم الإبداعية في سبيل خدمة العلم.
مگر افسوس بر صغیر ہند میں ہمارے بڑے مدارس ، جہاں امکانات ہیں، نے ٹیچرز ٹریننگ کورس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ہزاروں کی تعداد میں مولوی عالم فاضل simple graduate کی طرح نکلتے ہیں ان میں سے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جن کے اندر علمی استعداد ہوتی ہے وہ بھی اور محض عالمیت کی ڈگری لے کر آتے ہیں وہ بھی معلمی کا پیشہ اختیار کرتے ہیں۔ ترتیب کی اسی کمی کا نتیجہ ہے کہ فاؤنڈیشن لیول پر تعلیم میں انحطاط کا اثر عالمیت اور فضیلت تک پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اور پھر ایسے ہی عالم جن کا فاؤنڈیشن کمزور تھا وہ تدریس کا پیشہ اختیار کرتے ہیں اس طرح انحطاط کا لا متناہی سلسلہ جاری رہتا ہے۔
کیا اس طرف توجہ دی جائے گی ؟