تحریر: سروج سنگھ
میگھالیہ کے گورنر ستیہ پال ملک نے 20 اکتوبر کو بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا ’زرعی قوانین پر مرکزی حکومت کو جھکنا ہو گا کسان نہیں مانیں گے‘ اور ایک ماہ بعد ان کی یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ بی جے پی حکومت نے زراعت کے نئے قانون کو واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے کی ٹائمنگ پر کافی بحث ہو رہی ہے۔
26 نومبر کو کسانوں کی تحریک کا ایک سال مکمل ہونے پر کسانوں نے پہلے ہی زرعی قوانین کے خلاف جاری اپنی اس تحریک کو تیز کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ اگلے سال پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس میں اتر پردیش سب سے بڑی ریاست ہے۔ جہاں ایک دن پہلے ہی امت شاہ کو مغربی اترپردیش کی کمان سونپی گئی تھی۔
لیکن گرو نانک دیو کے یومِ پیدائش کے دن وزیر اعظم نریندر مودی کے اس اعلان نے سب کو حیران کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر ’ماسٹر اسٹروک‘ ٹرینڈ کر رہا ہے، جس میں یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ ایک ماسٹر اسٹروک ہے۔ اس وجہ سے اب اس اعلان کی ٹائمنگ میں پنجاب ’اینگل‘ بھی جُڑ گیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اچانک ایک سال بعد مودی حکومت کو پنجاب کے عوام اور اس کی پرانے دوست سیاسی جماعت اکالی دل کی یاد کیوں آئی؟ چنڈی گڑھ میں ریسرچ سینٹرکے پروفیسر آر ایس گھمن کہتے ہیں ’دیر آئے درست آئے، لیکن یہ فیصلہ 700 کسانوں کی قربانی دینے کے بعد آیا ہے۔ مودی حکومت نے خود زراعت کے نئے قانون کو منسوخ نہیں کیا انھیں کسانوں کے غصے کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا۔ اتر پردیش کے انتخابات قریب ہیں اور ساتھ ہی پنجاب کے بھی۔‘
پنجاب کی زراعت، معاشیات اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والے پروفیسر گھمن کا مزید کہنا ہے کہ ’اس فیصلے کے بعد بھی بی جے پی کو پنجاب میں کچھ نہیں ملے گا۔ اگر اکالی دل جماعت کے ساتھ اتحاد ہوتا تو کچھ سیاسی فائدہ مل سکتا تھا۔ لیکن پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کیپٹن امریندر سنگھ کے ساتھ آنے کے بعد بھی اب بی جے پی کی دال نہیں گل پائے گی۔‘
غور طلب ہے کہ کیپٹن امریندر سنگھ نے بی جے پی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دیا تھا اور کہا تھا کہ مرکزی حکومت کو زرعی قانون پر دوبارہ غور کرنا چاہیے۔ مودی حکومت کے تازہ فیصلے کے بعد ان کا ردعمل سب سے پہلے آیا ہے اور انھوں نے اس کا خیر مقدم کیا ہے۔
’جب بی جے پی اور اکالی دل نے اتحاد کیا تھا تو دونوں پارٹیوں کے سرکردہ رہنماؤں لال کرشن اڈوانی اور پرکاش سنگھ بادل کی سوچ یہ تھی کہ اگر سکھوں کی نمائندگی کرنے والی پارٹی (اکالی دل) اور ایک ایسی پارٹی جو خود کو ہندوؤں سے ہم آہنگ کرے ، یعنی بی جے پی‘ مل کر لڑیں تو ریاست اور ملک کی سلامتی کے حق میں بہتر ہو گا۔ اسی لیے یہ اتحاد برسوں تک قائم رہا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ پنجاب بی جے پی کے لیے بہت اہم ہے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ وہاں 80 کی دہائی کے حالات دوبارہ پیدا ہوں۔‘
نئے زرعی قانون کی وجہ سے اکالی دل نے گزشتہ سال بی جے پی کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ اکالی دل پارٹی بی جے پی کی سب سے پرانی حلیف جماعت تھی۔
کئی سال سے بی جے پی کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والی انگریزی اخبار دی ہندو کی صحافی نستولا ہیبر کہتی ہیں ’مودی حکومت کے اس فیصلے کے پیچھے اترپردیش اور پنجاب دونوں ہی ریاستیں ایک وجہ ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کی سب سے اہم وجہ اتر پردیش کے انتخابات ہیں لیکن پنجاب بھی کئی لحاظ سے بی جے پی کے لیے اہم ریاست ہے۔‘
ریاست پنجاب کی اہمیت کو تفصیل سے سمجھاتے ہوئے نستولا کا کہنا ہے کہ ’پنجاب بھارت کی سرحدی ریاست ہے، جہاں کئی خالصتانی گروپ اچانک متحرک ہو گئے ہیں۔ ایسے میں انتخابات سے قبل پنجاب میں کئی گروپ سرگرم ہیں جو موقع کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ مودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد اکالی دل این ڈی اے کے ساتھ واپس آتی ہے یا نہیں۔
سینٹر فاراسٹڈی آف ڈیولپمبنگ سوسائٹیز سے وابستہ پروفیسر سنجے کمار کہتے ہیں، ’اس فیصلے سے بھلے ہی بی جے پی کو زیادہ فائدہ نہ پہنچے، لیکن پنجاب میں کانگریس کو کافی نقصان ہو سکتا ہے۔ اکالی دل، کیپٹن امریندر سنگھ اور بی جے پی یہ تینوں ایک ساتھ آتے ہیں تو سب سے زیادہ اثر کانگریس پر پڑے گا۔‘ سی ایس ڈی ایس کے تخمینے کے مطابق، بی جے پی کو پنجاب میں 7-8 فیصد ووٹ ملتے تھے اکالی دل کے ساتھ یہ ووٹ تقریباً 35 فیصد تھے۔
مرکزی حکومت اس سے پہلے کن فیصلوں پر جھکی ہے؟
ویسے مودی حکومت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں پر نہیں جھکتی۔ لیکن کچھ ایسے واقعات ہیں جن میں حکومت ماضی میں بھی اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹی ہے۔
اس سے قبل زراعت سے متعلق حصول اراضی قانون پر بھی مرکزی حکومت پیچھے ہٹی ہے۔ تب کانگریس رہنما راہل گاندھی نے پارلیمنٹ میں حصول اراضی قانون کی مخالفت کی اور مرکزی حکومت کو ‘سوٹ بوٹ کی سرکار کہا تھا۔ ضمنی انتخابات میں کئی سیٹوں پر شکست کے بعد پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کمی کرنے کے فیصلے کو بھی مرکزی حکومت کا جھکاؤ قرار دیا گیا۔
سیاست کو قریب سے سمجھنے والوں کا خیال ہے کہ ’انتخاب میں ہار‘ بی جے پی کی دکھتی رگ ہے۔ بی جے پی کو جہاں بھی اپنے فیصلے انتخابات میں شکست کی وجہ بنتے دکھائی دیتے ہیں وہ ان پر ضرور نظر ثانی کرتی ہے یا پھر سمجھوتہ کرتی ہے۔
اس سے قبل بھی بی جے پی مہاراشٹر میں حکومت بنانے میں ناکام رہی جہاں اس کی لوک سبھا کی 48 سیٹیں ہیں۔ پھر مغربی بنگال میں ہار گئے جہاں بی جے پی کی 42 لوک سبھا سیٹیں ہیں۔
اور اس ماہ ہونے والے ضمنی انتخابات میں بی جے پی کی توقع کے مطابق کارکردگی نہیں رہی۔ اتر پردیش میں جہاں سے 80 لوک سبھا نشستیں ہیں وہاں نشستوں کی الٹ پھیر پارٹی کے لیے 2024 کے لوک سبھا انتخابات کو متاثر کر سکتا ہے۔ ان تین ریاستوں میں لوک سبھا کی 170 نشستیں ہیں۔ کئی ماہرین حکومت کے اس فیصلے کے پیچھے پارٹی کے اس حساب کتاب کو ایک وجہ مانتے ہیں۔
اتر پردیش الیکشن کی اہمیت
’ایک دن پہلے ہی اتر پردیش کو کئی علاقوں میں تقسیم کرتے ہوئے مغربی اتر پردیش کی کمان بی جے پی میں امت شاہ کو دی گئی تھی یہ اپنے آپ میں اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ مغربی اتر پردیش بی جے پی کے لیے کتنا اہم ہے۔‘
اسی کو بنیاد بناتے ہوئے سینئر صحافی سنیتا ایرون کا کہنا ہے کہ اس فیصلے کا تعلق اگلے سال اتر پردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے ہے۔
کچھ تجزیہ کار دعویٰ کر رہے ہیں کہ کسانوں کی تحریک کا اتر پردیش کی 100 سیٹوں پر اثر پڑے گا۔ دوسری جانب کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ مغربی اتر پردیش میں کسانوں کا مسئلہ گنے کی فصل ہے نیا زرعی قانون نہیں۔ مرکزی حکومت کا فیصلہ اس حقیقت پر مہر لگ رہا ہے کہ بی جے پی کو ایسی اطلاعات ملی ہوں گی کہ کسانوں کی تحریک انتخابات پر کتنا اثر انداز ہو رہی ہے۔
سنیتا ایرون کہتی ہیں کہ ’مغربی اتر پردیش کے علاقے میں جینت چودھری کو بھی اچھی حمایت مل رہی تھی جس کی وجہ سے اگر آر ایل ڈی کا سماج وادی پارٹی کے اکھلیش یادو کے ساتھ اتحاد ہوتا تو سماج وادی پارٹی کو فائدہ ہوتا۔‘ حالانکہ سماج وادی پارٹی کے ساتھ آر ایل ڈی کے باضابطہ اتحاد کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ یہ بھی دیکھنا دلچسپ ہو گا کہ مودی حکومت کے اس فیصلے کے بعد ان کا اگلا موقف کیا ہو گا۔
اتر پردیش میں اس فیصلے سے کتنا فائدہ ہو گا؟
سی اے ایس ڈی اے کے اعداد و شمار کے مطابق مغربی اتر پردیش میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر تناسب کچھ اس طرح ہے۔ وہاں مسلمان 32 فیصد، دلت تقریباً 18 فیصد، جاٹ 12 فیصد اور او بی سی 30 فیصد ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اس علاقے میں تقریباً 70 فیصد لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔
ان میں سے بی جے پی مسلمانوں کو کبھی اپنا ووٹ بینک نہیں مانتی۔ دلتوں اور او بی سی کو ساتھ لانے کے لیے بی جے پی پہلے ہی کئی کانفرنسوں کا انعقاد کرتی رہی ہے۔
حال ہی میں اتر پردیش بی جے پی کے صدر سواتنتر دیو سنگھ کا دلتوں کے گھر چائے پینے کا بیان بھی سرخیوں میں رہا تھا۔ اب زرعی قانون واپس لینے کی وجہ سے ناراض جاٹوں کے 12 فیصد ووٹ بھی بی جے پی کی جھولی میں آئیں گے، تب بی جے پی کے لیے صورتِ حال اچھی ہو سکتی ہے۔ تاہم بی کے یو کے رہنما راکیش ٹکیت نے کہا ہے کہ وہ قانون پارلیمنٹ سے منسوخ ہونے کے بعد ہی احتجاج واپس لیں گے۔
مغربی اتر پردیش سے وابستہ صحافی اور دیہی انڈیا کے بارے میں ایک ویب سائٹ چلانے والے صحافی ہرویر سنگھ کہتے ہیں، ’اگر انتخابات سے پہلے سڑکوں پر کوئی تحریک نہیں چلتی ہے تو بی جے پی کو کچھ فائدہ ہو گا اور کسانوں کا غصہ کم ہو گا۔ لیکن مجھے ایسا نہیں لگتا کہ یہ مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ کسانوں کے دیگر مسائل ہیں جیسے گنے کی قیمت، یوریا اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، بجلی پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمتیں۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اس فیصلے کے بعد مغربی اتر پردیش میں شاید بی جے پی کی اتنی نشستیں کم نہ ہوں جتنی پہلے ہوئی تھیں۔‘
حالانکہ سنیتا ایرون کہتی ہیں کہ ’انتخاب میں ابھی کچھ مہینے باقی ہیں۔ بی جے پی کے پاس اپنے کارکنوں کی فوج ہے۔ اس وقت اس فیصلے سے بی جے پی کو برتری ملتی نظر آ رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کس حد تک گھر گھر جا کر کسانوں تک اپنی بات پہنچانے میں کامیاب ہوتی ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی )