ایران کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے بڑے میزائل حملے کے بعد کئی ماہرین کا خیال ہے کہ علاقائی جنگ کے شروع ہونے کا رجحان پیدا ہوگیا ہے۔ ایک سال قبل غزہ کی پٹی میں جنگ شروع ہونے کے بعد سے مشرق وسطیٰ کا خطہ پہلے ہی شدید کشیدگی کا شکار ہے۔ حماس کی طرف سے 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر غیرمعمولی حملہ کیا گیا تھا۔ اس دن سے شروع ہونے والی جنگ اب لبنان تک پھیل چکی ہے۔
کیا اسرائیل جواب دے گا؟
اسرائیل پر ایرانی میزائل حملے کے بعد اسرائیلی سیاسی اور عسکری حکام نے تصدیق کی کہ تل ابیب جواب دے گا۔ تہران نے اپنے حملے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے 200 کے قریب بیلسٹک میزائلوں سے اسرائیل پر حملہ کیا ہے اور یہ 31 جولائی کو تہران میں حماس سربراہ اسماعیل ہنیہ اور 27 ستمبر کو بیروت کے مضافات میں حزب اللہ سربراہ حسن نصر اللہ کو قتل کیے جانے کا بدلہ تھا۔
حزب اللہ کو ایران کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ خطے میں اس کا اہم اتحادی سمجھا جاتا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے حملے کے فوراً بعد منگل کی شام کہا کہ ایران نے ایک سنگین غلطی کی ہے اور وہ اس کی قیمت چکائے گا۔اس تناظر میں جین جورس فاؤنڈیشن میں شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ آبزرویٹری کے ڈائریکٹرز میں سے ایک ڈیوڈ خالفا کا خیال تھا کہ حملے کے سائز کی وجہ سے اسرائیلی جواب دینے پر مجبور ہیں۔ اسرائیلی انسٹی ٹیوٹ فار سیکیورٹی سٹڈیز کے ایرانی امور کے ماہر ڈینی کیتینووِٹس نے اپنی طرف سے کہا کہ یہ (یہودی) تعطیلات کا وقت ہے اور جواب دینے کے لیے یہ وقت مناسب نہیں ہے لیکن یہ وقت بہت جلد آئے گا۔
اسرائیل کے پاس کیا آپشن ہیں؟
خالفا نے کہا کہ ایرانی حملے کے بعد سے اسرائیل میں حکومتی اراکان سمیت متعدد پارٹیاں اسرائیل کو ایرانی حکومت کے ساتھ معاملہ طے کرنے کے لیے ایک تاریخی موقع دستیاب ہونے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے بدھ کے روز ایران میں جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کے لیے فیصلہ کن حملہ کرنے کی اپیل کی ہے۔
دستیاب آپشنز میں سے اسرائیل میں ماہرین اور میڈیا سٹریٹجک مقامات پر حملے شروع کرنے یا سائبر حملے کے امکان پر بات کر رہے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعرات کو ایرانی تیل کی تنصیبات پر ممکنہ حملوں کے بارے میں جاری بات چیت کے بارے میں بات کی۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایران اور اسرائیل کئی دہائیوں تک مسلسل کشیدگی کے بعد اب چھپے ہوئے تصادم نہیں بلکہ ایک کھلی جنگ میں آگئ۔ ہیں اور یہ جنگ علاقائی کشیدگی کی جنگ میں بدل سکتی ہے۔ نیتن یاہو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ نیتن یاہو کے مطابق اس صورت حال میں ایران اسرائیل کے لیے ایک وجودی خطرہ بنے گا۔ ایران طویل عرصے سے اس بات سے انکار کرتا رہا ہے کہ اس کے ایٹمی پروگرام غیر شہری مقاصد کے لیے ہیں۔
کریٹو نووٹس نے کہا ہے کہ ایران نے اپنا حساب کتاب کر لیا ہے اور اس کے حکام نے تصدیق کی ہے کہ ممکنہ اسرائیلی حملے پرایرانی رد عمل مزید شدید ہوگا۔ اسرائیلی انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز میں ایران پر تحقیقی پروگرام کی ڈائریکٹر سیما شن نے کہا کہ ایران کی صلاحیت سے ثابت ہے کہ وہ 200 سے زیادہ میزائل بھی بھیج سکتا ہے اور 300 بھی ڈرونز بھی بھیج سکتا ہے۔
یہ بیرون ملک دہشت گرد کارروائیاں کرنے کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ اس میں اسرائیل کے سفارتی مشن یا یہودی تنظیموں کے مراکز پر حملے کیے جا سکتے ہیں۔۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہر نئی دہلیز کو عبور کرنے کے ساتھ ہی علاقائی جنگ شروع ہونے کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اسرائیل اور ایران کئی بار اس بات کی تصدیق کر چکے ہیں کہ وہ ردعمل اور جوابی ردعمل کی پر تشدد حد میں داخل نہیں ہونا چاہتے۔اسرائیل کئی محاذوں پر مسلح تصادم میں مصروف ہے غزہ کی پٹی میں، مغربی کنارے میں اور یمن میں حوثیوں کے خلاف لڑائی چل رہی ہے۔ لبنان میں اسرائیل پیر سے شدید کارروائیاں شروع کر چکا ہے۔ اس صورت حال میں اسرائیل کی فورسز بھی متحرک کردی گئی ہیں۔
اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ آخر میں دونوں فریق ایک سیاسی حل تلاش کریں گے۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ فرانس صورتحال کو پرسکون کرنے میں فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے۔ بائیڈن نے جمعرات کو تصدیق کی کہ مشرق وسطیٰ میں ہمہ گیر جنگ شروع ہونے سے ہم بچ سکتے ہیں