تحریر: شبھ جیوتی گھوش
آزادی کے بعد عدم تشدد اور ستیہ گرہ کے مسیحا موہن داس کرم چند گاندھی کو بابائے قوم کا اعزاز دیا گیا، لیکن آج کے بھارت میں، خاص طور پر بی جے پی کے گذشتہ ساڑھے سات سال کے اقتدار میں، یہ سوال بار بار اٹھایا جاتا رہا ہے کہ گاندھی کے اقدار و نظریات اس ملک میں کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔ حال ہی میں بابائے قوم کا 150 واں یوم پیدائش سادگی کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔
دوسری جانب گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کی کھلے عام پوجا اور تعریف کی جارہی ہے۔ تمام ہندوتوا طاقتیں، یہاں تک کہ بی جے پی کے ایم پی بھی گوڈسے کی تعریف و توصیف میں شامل ہیں۔ بالی ووڈ نے بھی رواں سال گاندھی یومِ پیدائش کے موقع پر گوڈسے کی بایوپک بنانے کا اعلان کیا ہے۔ کیا آج کے ہندوستان میں بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی کی شناخت ختم ہو رہی ہے؟
ہندو مہاسبھا، جس کے اراکین نے گاندھی کے قتل کے سازش بنائی تھی اب بھی وسطی بھارت کے گوالیار میں سرگرم ہے۔ اس علاقے میں بھی اس تنظیم کا بہت اثر و رسوخ ہے۔ ایک سال قبل گوالیار میں اس کے دفتر میں گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا۔ 15 نومبر سنہ 1949 کو گاندھی کے قتل کے ملزم نارائن آپٹے اور ناتھورام گوڈسے کو امبالہ سنٹرل جیل میں پھانسی دی گئی تھی۔
ہندو مہاسبھا اس دن کو ہر سال ’بلیدان دیوس‘ یعنی یوم قربانی کے طور پر مناتی ہے۔ مندر میں پوجا بھی کی جاتی ہے۔ دونوں مراٹھی شخص کے مجسمے کو دودھ اور گھی سے دھویا جاتا ہے۔ ہندو مہاسبھا اس دن میڈیا کو فون کرنا اور بتانا نہیں بھولتی کہ وہ ’شہید‘ نارائن آپٹے اور ’شہید‘ ناتھورام گوڈسے سے اظہار عقیدت کے طور پر مندر بنانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
اگرچہ بھارت میں دیوتا کی پوجا کرنا قابل سزا جرم نہیں ہے لیکن چند سال پہلے تک ملک میں بابائے قوم کے قاتل کو کھلے عام خراج عقیدت پیش کرنا ناقابل عمل کام تصور کیا جاتا تھا۔ لیکن اب ملک کے مختلف حصوں میں اسی طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، کھلے عام کہا جا رہا ہے کہ گوڈسے نے ملک کو کتنا فائدہ پہنچایا ہے۔
گذشتہ عام انتخابات کے دوران، بھوپال سے بی جے پی کی امیدوار پرگیہ سنگھ ٹھاکر نے گوڈسے کو ’دیش بھکت‘ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ انتہا پسندی سے منسلک ایک مقدمے میں ضمانت پر باہر آنے والی یہ رہنما بعد میں رکن پارلیمنٹ اور دفاعی امور کی پارلیمانی کمیٹی کی رکن بنیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ گوڈسے کے بارے میں اس بیان کے لیے پرگیہ ٹھاکر کو کبھی معاف نہیں کریں گے – لیکن حقیقت میں ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
بھگوا پوش سادھوی، جو اس وقت رکن پارلیمان ہیں، بعد میں پارلیمنٹ میں کھڑی ہوئیں اور گوڈسے کو محب وطن قرار دیا۔
‘عظیم‘ ناتھو رام گوڈسے نے ‘گاندھی کے قتل‘ کے الزام پر عدالت کے سامنے کس طرح اپنا موقف پیش کیا، اس طرح کی کئی پوسٹس فیس بک یا وہاٹس ایپ پر لگاتار شیئر کی جا رہی ہیں۔ اور ہندو مہاسبھا کے رہنما ونائک دامودر ساورکر کو بی جے پی کے دور حکومت میں قومی ہیرو کا درجہ دیا جا رہا ہے۔ ایک دہائی قبل اٹل بہاری واجپئی کی قیادت میں اس وقت کی بی جے پی حکومت نے انڈمان کے پورٹ بلیئر ایئرپورٹ کا نام بدل کر ’ویر ساورکر‘ کر دیا تھا۔
بی جے پی کے پالیسی ریسرچ سیل کے رکن اور پالیسی ساز انربان گنگولی کا دعویٰ ہے کہ گوڈسے کی تعریف کرنے والوں کا بی جے پی کے مرکزی دھارے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘گوڈسے کی مقبولیت یا کشش ہمیشہ ایک طبقے کے اندر رہی ہے۔
’گوڈسے نے اپنا استدلال پیش کیا تھا کہ انھوں نے گاندھی کو کیوں مارا – کچھ ان سے متفق ہو سکتے ہیں، کچھ ان کے خلاف ہو سکتے ہیں۔‘
گنگولی کا کہنا ہے کہ ’گوڈسے کو محب وطن سمجھنا یہ لوگوں پر منحصر ہے لیکن آج کل سوشل میڈیا کے رجحان سے ایسی باتیں سبھی کو معلوم ہو رہی ہیں، جن سے پہلے لوگ واقف بھی نہیں تھے۔ لیکن کیا اسے مین سٹریم سوچ کہا جا سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔‘ وہ کہتے ہیں: ‘بی جے پی نے کبھی گوڈسے کی پوجا نہیں کی، ‘سماج سے باہر’ کے کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں۔ اور گوڈسے نے خود اپنی زندگی میں ہندو مہاسبھا یا ساورکر کو مسترد کر دیا تھا۔‘
لیکن سابق سینئر بیوروکریٹ اور اب ترنمول کانگریس کے رکن پارلیمنٹ جواہر سرکار کا کہنا ہے کہ بی جے پی-آر ایس ایس-جن سنگھ-ہندو مہاسبھا اور گوڈسے-ساورکر کا نظریہ درحقیقت آپس میں جڑا ہوا ہے۔
وہ کہتے ہیں: ’گوڈسے اپنی ابتدائی زندگی میں آر ایس ایس کے رکن تھے، لیکن بعد میں وہ ایک اور انتہا پسند تنظیم ہندو مہاسبھا میں چلے گئے۔‘ جواہر سرکار کا کہنا ہے کہ ’ساورکر خود اس وقت ہندو مہاسبھا کے کام کو دیکھتے تھے۔ اس کے نتیجے میں، گوڈسے کے دو جین ہیں – آر ایس ایس اور ہندو مہاسبھا۔‘
‘اور اس میں کوئی شک نہیں کہ بی جے پی کا ڈی این اے ساورکر یا گوڈسے کا حامی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مودی جب بھی ساورکر کے مجسمے کو دیکھتے ہیں، وہ اس کے سامنے جھک جاتے ہیں اور پوجا کرتے ہیں۔ جواہر سرکار کے مطابق، اگر آپ ساورکر کی تحریروں اور بیانات کو پڑھیں، تو آپ سمجھ جائیں گے کہ وہ گاندھی مخالف، امن مخالف شخص ہیں۔
‘پہلے تو وہ آزاد ہندوستان کے سیاسی دھارے میں شامل نہیں ہونا چاہتے تھے۔ بعد میں انھوں نے سنہ 1953 میں جن سنگھ پارٹی بنائی۔ اور اگر وہ سیاست میں رہنا چاہتے ہیں تو انھیں لوگوں کو دکھانے کے لیے کچھ رسومات پر عمل کرنا ہوگا۔ ان کی گاندھی پوجا بھی کچھ اسی طرح کی ہے۔جواہر سرکار نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘اس کے باوجود وہ گوڈسے یا ساورکر کے بارے میں بات کرتے رہیں گے۔
لیکن اگر ناتھورام گوڈسے کی تعریف سماجی طور پر قابل قبول ہو رہی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک مہاتما گاندھی کو بھول رہا ہے؟
ملک کی معروف تاریخ دان اور نہرو میموریل میوزیم کی سابق سربراہ مردولا مکھرجی نے اس کا سیدھا سا جواب دیا:حقیقت یہ ہے کہ اس ملک کے کسان پچھلے ایک سال سے گاندھی کے دکھائے گئے ستیہ گرہ اور عدم تشدد کے احتجاج کے راستے پر چل رہے ہیں، یہ ظاہر کرتا ہے کہ گاندھی انھیں یاد ہیں۔
گاندھی کا نظریہ خواہ کسی کے ذہن میں نہ ہو، لیکن آج جس طرح سے ان کے قاتل کو تسلیم کیا جا رہا ہے، مردولا مکھرجی اسے کسی قیمت پر قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’یہ پورا واقعہ حقیقت سے پرے، افسوسناک اور ناقابل معافی ہے۔‘
وہ پوچھتی ہیں کہ ‘آپ ایک ایسے قاتل کی پوجا کیسے کر سکتے ہیں جسے عدالت میں موت کی سزا سنائی گئی ہو؟ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ گاندھی کا قتل جائز ہے، ایسا ہی ہے ناں؟ اور جو لوگ گوڈسے کے حق میں اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، ان کے خلاف کیا کوئی کارروائی ہوئی ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ پورے انڈیا میں کہیں بھی اس کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ گاندھی کے پڑپوتے اور مصنف ومحقق تشار گاندھی کا کہنا ہے کہ یہ حیرت کی بات نہیں ہے۔
’مہاتما گاندھی فاؤنڈیشن‘ کے صدر تشار گاندھی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا: ’جو لوگ جانتے ہیں کہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور نریندر مودی ایک ہی سوچ اور نظریے سے تعلق رکھتے ہیں، انھیں حیرت نہیں ہو گی۔‘
تشار گاندھی کہتے ہیں کہ ’پہلے بھی گوڈسے کی پوجا چھپ چھپ کر کی جاتی تھی، لیکن جب وہ دیکھتے ہیں کہ ملک کی حکومت بھی ان کے ہی نظریے پر چل رہی ہے، تو اب وہ کھل کر ایسا کر رہے ہیں۔ بزدل لوگ ہمیشہ ایسا ہی کرتے ہیں۔‘
بابائے قوم موہن داس کرم چند گاندھی کے 150ویں یوم پیدائش پر مودی کو بالی ووڈ کے ستاروں سے سجے ایک اجتماع میں دیکھا گیا۔ اس دن وزیراعظم کی کال پر عامر خان اور شاہ رخ خان سے لے کر کنگنا رنوت، عالیہ بھٹ اورسونم کپور تک سب ایک ہی چھت کے نیچے تھے۔ ان میں سے کئی اسٹار فیسٹیول کے سرکاری اشتہار میں بھی نظر آئے۔
نریندر مودی نے بالی ووڈ پر بھی زور دیا کہ وہ گاندھی کے نظریے پر مبنی فلم بنائے، لیکن ابھی تک ایک بھی فلم مارکیٹ میں نہیں آئی۔ اس کے برعکس رواں سال گاندھی کے یومِ پیدائش پر ایک اعلان سامنے آیا ہے کہ بالی وڈ پروڈیوسر مہیش منجریکر گوڈسے کی زندگی پر فلم بنائیں گے۔ انھوں نے ساورکر کی بایوپک بھی بنائی ہے۔
مہیش منجریکر نے ایک بیان میں کہا کہ ناتھورام گوڈسے کی کہانی ہمیشہ سے ان کے لیے باعث کشش رہی ہے اور یہ کہ گوڈسے ‘نہ صحیح تھا، نہ غلط۔ وہ چاہتے ہیں کہ ناظرین ان کی فلم دیکھنے کے بعد فیصلہ کریں۔ انھوں نے گوڈسے کی بائیوپک بنانے کے لیے ایک ٹویٹ کے ساتھ گاندھی کا پسندیدہ بھجن ’رگھوپتی راگھو راجہ رام‘ پوسٹ کیا ہے۔ تاہم، یہ جاننا مشکل نہیں ہے کہ وہ گاندھی یا گوڈسے کس کے نقطہ نظر سے کہانی سنانے کی کوشش کریں گے۔
سابق ثقافتی سکریٹری اور پرسار بھارتی بورڈ کے سابق چیئرمین جواہر سرکار کا خیال ہے کہ نریندر مودی کو مہاتما گاندھی کی گجراتی شناخت کی واقعی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جواہر کہتے ہیں کہ ‘وہ گاندھی سے مکمل طور پر چھٹکارا نہیں پا سکتے کیونکہ گاندھی کو زندہ رکھنے کا ایک سیاسی فائدہ ہے اور اس میں سب کی دلچسپی ہے۔
‘دوسری وجہ مودی کا گجرات کے تئیں تعصب ہے۔ اگرچہ وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن بے شرمی سے گجرات نواز رخ دکھاتے ہیں، گویا اس ریاست میں سب اچھا ہے۔ اور چونکہ گاندھی بھی گجراتی ہیں، اس لیے وہ اسے بالکل بھی ترک نہیں کر سکتے۔ گاندھی گجراتی تھے، اور میں بھی ہوں۔ بس اتنی سی بات ہے۔
جواہر سرکار کہتے ہیں: ’انھوں نے گاندھی کی 150 ویں یوم پیدائش بھی انتہائی سادگی سے منائی۔ جب میں ثقافت کی وزارت میں تھا، حکومت نے رابندر ناتھ ٹیگور اور وویکانند کی سالگرہ کو بھی شاندار طریقے سے منایا تھا اور اس کا ایک فیصد بھی گاندھی کی یوم پیدائش کے موقعے پر نہیں منایا گیا۔‘
تو کیا پچھلے ساڑھے سات برس میں مودی حکومت نے گاندھی کے نظریے کو فروغ دینے کے لیے کچھ کیا ہے؟
بی جے پی لیڈر انیربان گنگولی کا کہنا ہے کہ ناقدین جو کچھ بھی کہیں انھوں نے دراصل کانگریس کی سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں موہن داس گاندھی کے لیے زیادہ احترام کا مظاہرہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘کانگریس نے ان تمام مقامات کو محفوظ رکھنے کے لیے کیا کیا ہے جہاں گاندھی نے ملک کا دورہ کیا یا ٹھہرے؟ گاندھی نے کانگریس پارٹی کو تحلیل کرنے کے لیے بھی کہا تھا۔
‘سنہ 1917 میں، گاندھی جی نے صفائی کے بارے میں بات کرتے ہوئے، دلیل دی کہ اگر ہم اپنے احاطے، گھروں، شہروں اور گاؤں کو صاف نہیں رکھ سکتے، تو ہم سوراج نہیں چلا سکیں گے۔ ‘آج، بی جے پی حکومت نے انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ’سووچھ بھارت ابھیان‘ شروع کیا ہے۔ یہ پروگرام بہت کامیاب رہا ہے۔ انھوں نے مزید کہا: ’گاندھی جی کے سابرمتی آشرم کی اب بین الاقوامی معیار کے مطابق تزئین و آرائش کی جا رہی ہے تاکہ وہاں لاکھوں عقیدت مند آ سکیں۔ اور یہ نریندر مودی حکومت نے شروع کیا ہے۔‘
انیربان گنگولی کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی نے نہ صرف صفائی مہم کے ذریعے لوگوں میں بابائے قوم کو ایک نیا درجہ دیا ہے بلکہ گاؤں میں بیت الخلا بنا کر اور کھادی برانڈ کو نئی زندگی دے کر بھی ایسا کیا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا: ‘گاندھی جی ہمیشہ بیت الخلاء کی خود صفائی کی بات کرتے تھے۔ یہ ان کے فینکس، سابرمتی یا وردھا کے آشرموں میں اصول تھا۔
انیربان گنگولی یاد دلاتے ہیں کہ مہاتما گاندھی نے کانگریس پارٹی کے اجلاس کے دوران بیت الخلاء سے گندا پانی نکلتا دیکھ کر وہاں صفائی کی ابتدا کی تھی۔ ‘تو کوئی نہیں پوچھ رہا ہے کہ جو پارٹی ان نظریے کی علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، وہ آزادی کے بعد اتنے برسوں تک ملک کے دور دراز علاقوں یا دیہی علاقوں میں بیت الخلاء کیوں نہیں بنا سکی؟
‘اور کھادی کو مت دیکھو۔ وہ کھادی جسے ہمارا ‘فیبرک آف فریڈم’ کہا جاتا ہے، اسے پہنا نہیں جا رہا تھا۔ اس کھادی کی بوسیدہ دکانیں کیوں چل رہی ہیں؟ آج روزانہ کھادی کا کروڑوں روپے کا کاروبار ہو رہا ہے۔
تشار گاندھی کا کہنا ہے کہ گاندھی کا نام نہاد ترقیاتی پروگرام ایک چیز ہے، اور ریاست کو تمام ذاتوں اور مذاہب کو ساتھ لے کر چلنے کے ان کے نظریے سے مخالف سمت میں چلانا دوسری بات ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘حقیقت یہ ہے کہ گاندھی کو بابائے قوم کہا جاتا ہے، لیکن دراصل اسے بالکل بے معنی بنا دیا گیا ہے۔ بھارت میں بہت کم لوگ گاندھی کو اس طرح دیکھتے ہیں یا ان کی اس طرح پیروی کرتے ہیں، اور یہ آج پہلی بار نہیں ہے۔ لیکن یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ حیثیت زیادہ غیر مستحکم ہو گئی ہے۔
تشار گاندھی کہتے ہیں: ‘یہ سچ ہے کہ گاندھی کو اپنی گجراتی جڑوں پر فخر تھا، لیکن اس شناخت کے ساتھ وہ پوری دنیا کی انسانیت کے ہو گئے۔ وہ کہتے ہیں: ‘آج ایک طرف وزیر اعظم فخر سے کہتے ہیں کہ وہ بھی گاندھی کی طرح گجراتی ہیں اور دوسری طرف ان کی حکومت ملک کے شہریوں کے ایک حصے کو فروغ دینے تک محدود ہے، مجھے نہیں لگتا کہ کوئی ایسا کر سکتا ہے۔
تشار گاندھی کا کہنا ہے کہ ‘اس سے بڑا گاندھی مخالف اقدام نہیں ہوسکتا۔ ہندوستان میں ‘نرمدا بچاؤ آندولن (تحریک)کی رہنما اور گاندھیائی نظریات کی حامل میدھا پاٹکر کا بھی ماننا ہے کہ اس حکومت کا راستہ عدم تشدد اور ستیہ گرہ کے راستے سے بہت دور ہے۔ ان کا خیال ہے کہ انڈیا میں ‘مودی بمقابلہ گاندھی کی لڑائی ہمیشہ سے چلتی رہی ہے۔
‘اس حکومت کے تمام ماڈلز، معاشی، سیاسی یا سماجی سب گاندھی کے نظریے کے خلاف ہیں۔ ‘میں انھیں گاندھی کا حامی کیسے کہہ سکتی ہوں جب کہ انھوں نے عدم تشدد پر تشدد کا انتخاب کیا ہے، وہ ہمیشہ سچ کی بجائے جھوٹ پر عمل پیرا ہیں۔
جواہر سرکار سمجھتے ہیں کہ بابائے قوم کے ساتھ بی جے پی کی سب سے بڑی دھوکہ دہی اس کی مذہبی فرقہ پرستی کی سیاست ہے۔
ان کا خیال ہے کہ مذہب سے قطع نظر ملک کو سیکولر رکھنے کا گاندھی کا منتر آج انڈیا میں معدوم ہونے کے دہانے پر ہے۔ جواہر سرکار کہتے ہیں: ‘اس میں کوئی شک نہیں کہ گاندھی نے اس ملک میں بنیاد پرستی کے خلاف سب سے مضبوط موقف اختیار کیا۔ نہرو نے مذہب سے دوری رکھی، لیکن گاندھی نے دکھایا کہ مذہبی ہونا بھی سیکولر ہو سکتا ہے۔
‘اسے ایک عجیب انڈین کردار کہا جا سکتا ہے۔۔۔ بیرون ملک سیکولرازم کا مطلب مذہب سے علیحدگی ہے، لیکن انڈیا میں اس کا مطلب ہے کہ اپنے مذہب پر یقین رکھتے ہوئے دوسرے مذاہب کو برداشت کرنا۔
جواہر سرکار کہتے ہیں: ‘نہرو ایک مغربی سیکولر، مذہب مخالف نظریہ کے حامی شخص تھے جس کا انڈیا میں چلنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن انڈیا میں مرکزی خيال یہ ہے کہ مذہبی ہوتے ہوئے غیر فرقہ پرست ہونا اور یہی گاندھی کی دین ہے۔انھوں نے مزید کہا: ‘اگرچہ انھوں نے ’رگھوپتی راگھو‘ بھجن گایا، لیکن انھوں نے کبھی بھی رام کے نام پر مسجد کو گرانے کی حمایت نہیں کی۔ آج نہ تو پہلے کی طرح رام ہے اور نہ ایودھیا ہے۔
‘موہن داس کرم چند گاندھی مجموعی طور پر انڈیا کی سیاست، سماج اور معیشت میں مناسبت کھوتے جا رہے ہیں۔ اور دوسری طرف، ناتھورام گوڈسے اور ساورکر کے حامی زیادہ سے زیادہ بلند آواز اور کھل کر سامنے آ رہے ہیں۔’شاید وہ دن دور نہیں جب بابائے قوم انڈیا میں صرف سرکاری دفاتر کی دیواروں پر، سرکاری ملازمین کے کوٹ پنوں پر یا کرنسی نوٹوں کی تصویروں پر سجے نظر آئیں گے۔
(بشکریہ: بی بی سی )