سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکہ کے ساتھ اپنے ملک کی سرمایہ کاری کو 600 ارب ڈالر تک بڑھانے کا وعدہ کیا ہے۔ اس کے جواب میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ پہلے غیر ملکی دورے کے لیے دوبارہ سعودی عرب کا انتخاب کر سکتے ہیں بشرطیکہ سعودی عرب کی طرف سے 450 ارب ڈالر مالیت کی امریکی مصنوعات خریدی جائیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ 600 ارب ڈالر ناکافی ہی انھوں نے سعودی-امریکی تجارت کو 1000 ارب امریکی ڈالر تک بڑھانے کا عندیہ دیا۔
ٹرمپ نے حال ہی میں کہا ہے کہ ‘ سعودی ولی عہد ایک شاندار آدمی ہیں۔ میں ان سے کہوں گا کہ اس رقم کو تقریباً 1000 ارب ڈالر تک بڑھا دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ ایسا کریں گے کیونکہ ہم ان کے ساتھ اچھے رہے تھے۔’یہ باہمی بیانات دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے مستقبل کی عکاسی کرتے ہیں جس کی مضبوطی بنیادی طور پر دونوں فریقوں کے معاشی مفادات سے عیاں ہے
تاہم سیاست کا دار و مدار مختلف عوامل پر ہوتا ہے اور بات صرف سرمایہ کاری تک محدود نہیں۔ ریاض واشنگٹن سے مراعات چاہتا ہے اور واشنگٹن ریاض سے دوسرے معاملات میں بھی مدد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ریاض واشنگٹن کے ساتھ ایک دفاعی معاہدہ چاہتا ہے جس کی سیاسی حلقوں میں بازگشت ہو رہی ہے۔ پچھلی امریکی انتظامیہ نے دفاعی معاہدے کو سعودی عرب اور اسرائیل کے بیچ تعلقات کی بحالی سے مشروط قرار دیا تھا۔ لیکن غزہ کی پٹی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ نے معاملہ مزید پیچیدہ بنا دیا۔
ریاض نے اسرائیل سے دو ریاستی حل کا مطالبہ کیا جسے اسرائیل مسترد کرتا ہے۔
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان کوئی دفاعی معاہدہ آسان نہیں ہوگا کیونکہ اس کے لیے امریکی کانگریس کی دو تہائی اکثریت درکار ہوگی۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک سعودی عرب اور اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال نہیں ہو جاتے۔سعودی عرب ایک پُرامن ایٹمی پروگرام بھی چاہتا ہے جس پر امریکہ اور اسرائیل دونوں کو تشویش ہے۔اسرائیل نے واضح طور پر سعودی عرب کی جانب سے یورینیم کی افزودگی کو مسترد کر دیا تھا کہ اس سے مشرق وسطیٰ کے خطے میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کی دوڑ کا راستہ کھل سکتا ہے۔دفاعی معاہدے، پُرامن جوہری پروگرام اور دو ریاستی حل کے سعودی مطالبات پر امریکہ کے مطالبے بھی اتنے ہی سخت ہیں۔امریکہ چاہتا ہے کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات بحال ہوجائیں اور اس کے ساتھ ساتھ سعودی سربراہی میں خلیج تعاون کونسل کے ذریعے چینی اور روسی اثر و رسوخ کا مقابلہ کیا جائے۔ سعودی عرب نے حالیہ عرصے کے دوران خاص کر توانائی کے شعبے میں چین اور روس سے اچھے تعلقات بنائے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک پیچیدہ منظر نامہ ہے۔ سعودی عرب امریکی مصنوعات پر کتنا خرچ کرے، اس سے اتنا فرق نہیں پڑتا۔ سابقہ تجربات سے پتا چلتا ہے کہ اسرائیلی اثر و رسوخ دیگر عوامل پر سبقت حاصل کرتا ہے۔ جبکہ امریکہ کے اندر کوئی بھی اقتدار میں آئے، خارجہ پالیسی وہی رہتی ہے۔