اوکھلا اسمبلی سیٹ کی گونج عالمی پریس تک پہنچ گئی ،امانت اللہ عام آدمی پارٹی کا مسلم فیس ہیں اور میڈیا کی ٹی آر پی کی ڈیمانڈ ہیں – بی بی سی نے بھی اس سیٹ کا نوٹس لیا ہے اور اپنا جائزہ پیش کیا ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اوکھلہ پر شاہین باغ کی تاریخ کی وجہ سے دنیا کی نظر ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے کیا ںی جے پی یہاں جھنڈا لہرانے کا خواب پورا کرسکے گی ؟یہ سوال اس لیے اٹھ رہا ہے کہ یہان تین مسلم امیدوار لڑرہے ہیں اویسی کی انٹری نے اسے اور ہاٹ سیٹ بنادیا ہے ان کے امیدوار شفاء الرحمن ہیں جبکہ کانگریس سے اریبہ خان ہیں
اوکھلہ سیٹ مسلم اکثریتی ہے۔ یہاں 50 فیصد سے زیادہ فیصلہ کن مسلم ووٹر ہیں۔ گزشتہ دو انتخابات میں عام آدمی پارٹی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان سیدھا مقابلہ رہا ہے۔ اس بار آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین بھی یہاں سے الیکشن لڑ رہی ہے جس نے الیکشن کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ 1993 سے اب تک اوکھلا اسمبلی سیٹ پر آٹھ بار انتخابات ہوئے ہیں۔ جنتا دل، کانگریس، راشٹریہ جنتا دل اور عام آدمی پارٹی نے یہ سیٹ جیت لی ہے لیکن بی جے پی کا کھاتہ نہیں کھلا ہے۔ پرویز ہاشمی اس علاقے میں کانگریس کے سینئر لیڈر ہیں۔ وہ 1993 سے 2008 تک اس سیٹ سے چار بار (ایک بار جنتا دل اور تین بار کانگریس کے لیے) ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔
2009 میں پرویز ہاشمی راجیہ سبھا پہنچے اور اس کے بعد اوکھلا سیٹ پر ضمنی انتخابات ہوئے۔ آصف محمد خان ضمنی انتخاب میں پہلی بار راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے ٹکٹ پر ایم ایل اے منتخب ہوئے تھے۔
آصف محمدخاں نے 2013 میں بھی کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن جیتا تھا۔ عام آدمی پارٹی کے امانت اللہ خان 2015 سے یہاں کے ایم ایل اے ہیں۔ بی جے پی امیدوار منیش چودھری کا دعویٰ ہے کہ "میں اسمبلی حلقہ میں کونسلر رہا ہوں اور تمام طبقات مجھے پسند کرتے ہیں۔ کئی بار لوگ پارٹی لائن سے قطع نظر مجھے ووٹ دیتے ہیں، اس لیے بی جے پی یہ سیٹ جیتنے والی ہے۔”
گزشتہ انتخابات میں بی جے پی امیدوار برہم سنگھ تقریباً 59 ہزار ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ اوکھلا میں یہ بی جے پی کی اب تک کی بہترین کارکردگی ہے۔
**میرامقابلہ بی جے پی سے : امانت اللہ
امانت اللہ خان گزشتہ دو بار (2015 اور 2020) سے اوکھلا سیٹ سے ایم ایل اے رہ چکے ہیں۔ 2015 میں انہوں نے ایک لاکھ چار ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے تھے اور فتح کا مارجن 64 ہزار 352 ووٹ تھا۔2019 میں اس اسمبلی کے شاہین باغ علاقے میں شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ پھر احتجاج پر عام آدمی پارٹی کے رویہ پر سوالات اٹھائے گئے۔
اس کے باوجود امانت اللہ خان کو 2015 کے مقابلے میں زیادہ ووٹ ملے۔ 2020 میں انہوں نے ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کیے اور فتح کا مارجن 71 ہزار 827 ووٹ رہا۔
عام آدمی پارٹی کے اس مظاہرے کی ایک وجہ اس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کا بیان سمجھا جاتا تھا۔
انتخابات سے پہلے 25 جنوری 2020 کو امیت شاہ نے دہلی میں بی جے پی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’انتخابات میں بٹن کو اتنی زور سے دبائیں کہ شاہین باغ میں بجلی کا جھٹکا لگے‘‘۔ اب پانچ سال بعد علاقے میں الیکشن ہیں اور بی جے پی کے علاوہ AIMIM بھی امانت اللہ خان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ تاہم، ان کا ماننا ہے کہ اے اے پی کا بی جے پی سے براہ راست مقابلہ ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے امانت اللہ خان کا کہنا ہے کہ ‘بی جے پی ہمارے ووٹوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔ ہم نے گزشتہ دو انتخابات میں بی جے پی کو شکست دی تھی اور اس بار بھی ہمارا براہ راست مقابلہ بی جے پی سے ہے۔’ اس کے بعد اوکھلا میں اسد الدین اویسی اور ان کے امیدوار کے سوال پر امانت اللہ خان خاموش ہیں۔بی جے پی کے امیدوار منیش چودھری ہیں. انتخابات کے بارے میں آصف محمد کی بیٹی اور کانگریس امیدوار اریبہ خان کہتی ہیں، "ہریانہ کے انتخابات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اصل ووٹ حاصل کرنے والی عام آدمی پارٹی ہے۔ وہاں آپ کی ضمانت ضبط ہو گئی اور آپ نے کئی سیٹوں پر کانگریس کو نقصان پہنچایا۔ اویسی نے یہی بات کی۔ ہم شیلا جی کی طرح مضبوطی سے کام کر رہے ہیں کہ کیجریوال کی طرح نہیں روئیں گے کہ ایل جی کام کرنے نہیں دے رہے ہیں۔
ایم آئی ایم کے امیدوار شفاء الرحمن کی اہلیہ نورین فاطمہ ووٹ کٹوا پارٹی کے الزام پر کہتی ہیں "میرے مطابق عام آدمی پارٹی اور کانگریس ہمارے ووٹ کاٹ رہی ہیں، یہ لوگ کیا چاہتے ہیں کہ کوئی الیکشن نہ لڑے۔ ہم ووٹ کاٹنے والی پارٹی نہیں ہیں اور یہاں سے جیت رہے ہیں۔”بہر حال چناؤ بہت دلچسپ موڑ پر ہے اور اب دوتین دن رہ گیے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے