تحریر: نرمل رانی
بیٹیوں کے حقوق، ان کے تحفظ، عزت اور ان کی ترقی کے بارے میں جتنا ڈھونگ ہمارے ملک میں رچا جاتا ہے یا یوں کہیں کہ جتنا ڈرامہ کیا جاتا ہے کسی اور ملک میں نہیں کیا جاتا۔ اگر ہمارا معاشرہ واقعی ملک کی بیٹیوں کی آبائی رسومات، تعلیمات، خطابات اور لڑکی دوست حکومتی اسکیموں کے مطابق پرورش کر رہا ہوتا ،اسے پوری عزت واحترام دے رہاہوتا، بیٹی کو مذہب، ذات، غریب امیر، اونچ نیچ کے چشمے سے نہ دیکھا جاتا تو آج گھر گھر میں رانی لکشمی بائی، جیوتی بائی پھولے ،فاطمہ شیخ، بیگم حضرت محل ، رضیہ سلطان، اندرا گاندھی، سروجنی نائیڈو، لکشمی سہگل سے لے کر کلپنا چاولہ تک جیسی خواتین پیدا ہو کر ملک کا نام پوری دنیا میں روشن کررہی ہوتیں۔
ہمارے اپنے ملک میں لڑکیوں کے مفادات کی بات کرنے کے بہانے خواتین کو بھوت اور چڑیل کہہ کر ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جان سے بھی مار دیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک میں عصمت دری، لرزہ خیز عصمت دری، اجتماعی عصمت دری، نابالغ اور نوعمر لڑکیوں کی عصمت دری اور عصمت دری کے بعد قتل کے جتنے واقعات دنیا میں کہیں نہیں ہیں۔ اور اس لڑکی کے عدم تحفظ کے خوف سے بہت سے والدین اپنی بچیوں کو اسکول اور کالج بھیجنے سے بھی کتراتے ہیں۔
بچیوں کے اغوا اور عصمت دری کی بڑھتی ہوئی خبروں کے درمیان کئی بار وزیر اعلیٰ اور وزیر سطح کے لوگوں کو بھی یہ ’خطاب‘ کرتے ہوئے سنا گیا ہے کہ لڑکیوں کو رات گئے گھروں سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
کچھ ’پالیسی سازوں‘ نے یہ بھی کہا ہے کہ لڑکیوں کو گھر سے اکیلے نہیں نکلنا چاہیے۔ کیا یہ اس معاشرے کی ذمہ داری نہیں ہے جو بچیوں کے مفاد کی بات کرتا ہے اور بچیوں کی پوجا کرتا ہے؟
سوال یہ ہے کہ لوگوں میں لڑکیوں کے تئیں اتنی نفرت اور اتنی زہریلی ذہنیت کہاں سے آتی ہے؟ اگر اس موضوع کو پوری شفافیت اور دیانت داری کے ساتھ دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ ایسی دوغلی کیفیت پیدا کرنے کا اصل ذمہ دار وہی طبقہ ہے جو لڑکیوں اور خواتین کے مفادات کی بڑی بڑی باتیں کرتا ہے، طرح طرح کے وعدے کرتا ہے، وہ بہانہ بناتا ہے۔ منصوبہ بناتے ہیں اور خواتین کے لیے دوستانہ تبلیغ دیتے ہیں۔ یہی طبقہ خواتین کو محکوم اور عیاشی کے قابل سمجھتا ہے۔
کشمیری خواتین پر تبصرہ
یاد کیجئے کہ دو سال قبل جب کشمیر میں دفعہ 370 ختم کرنے کا اعلان کیا گیا تھا، اس وقت مرکزی وزیر وجے گوئل کی رہائش گاہ پر ایک بڑا ہورڈنگ لگایا گیا تھا، جس میں شیاما پرساد مکھرجی، وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کی تصویریں لگی تھیں۔ دوسری طرف سب سے بڑی ایک کشمیری لباس پہنے ایک عورت کی مسکراتی تصویر ہے۔
اس ہورڈنگ پر کشمیری خاتون کی تصویر کے نیچے یہ جملہ لکھا گیا تھا -’’ ‘دفعہ 370 کا جانا – تیرا مسکرانا‘‘ – وجے گوئل۔ کیا یہ متنازع ہورڈنگ یہ ظاہر نہیں کرتیں کہ خواتین کے تئیں ان کی سوچ اوراقدار کیا ہیں؟
اسی طرح ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے ’بیٹی بچاؤ-بیٹی پڑھاؤ مہم‘ کے حوالے سے ’واعظ‘ دیتے ہوئے انہی دنوں یہ کہا تھا کہ – آرٹیکل 370 ہٹنےکے بعد اب لڑکیوں کو شادی کے لیے کشمیر سے لایا جا سکتا ہے۔
اسی دوران کشمیری بالی ووڈ اداکارہ بدیتا باغ نے آرٹیکل 370 ہٹنے کے بعد کشمیر ی لڑکیوں سے شادی کرنے کے خواب دیکھنے والوں کو انہی کی زبان میں جواب دیا تھا کہ ’’ کشمیری سیب خریدنے کی اوقات نہیں ہے …. چلے ہیں کشمیر ی لڑکی سے شادی کرنے ۔‘‘
کھٹر کا بیان
اس سے پہلے بھی کھٹر نے نومبر 2018 میں عصمت دری کے بڑھتے ہوئے واقعات کو لے کر ایک متنازع بیان دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’’ریپ اور چھیڑ چھاڑ کے 80 سے 90 فیصد واقعات جانکاروںکے درمیان ہوتے ہیں۔ جوڑے کافی وقت کے لیے اکٹھے گھومتے ہیں ،ایک دن ان بن ہوجاتی ہے تو اس دن ایف آئی آر کروا دیتے ہیں کہ اس نے میرا ریپ کیا۔‘‘
یہ لڑکیوں اور خواتین کے تئیں نفرت کا نتیجہ ہے کہ ملک میں کبھی نربھیا جیسے کیس ہوتے ہیں تو کبھی نربھیا-2، 3 اور نربھیا-4۔ کبھی ہاتھرس جیسی ریپ ،قتل و ریپ متاثرہ کو ماں – باپ کی غیر موجودگی میں دیر رات کھیتوںمیں جلانے جیسا گھناؤنا واقعہ ہوتا ہے۔
کبھی کشمیر میں ایک معصوم آصفہ کو اجتماعی عصمت دری کے بعد قتل کر دیا جاتا ہے، تو وہی طبقہ عصمت دری کرنے والوں اور قاتلوں کی حمایت میں کھڑا ہو جاتا ہے، جو نہ صرف ’بیٹی بچاؤ- بیٹی پڑھاؤ‘کا جھنڈا بلند کر رہے ہیں بلکہ مذہب اور ثقافت کی بات بھی کر رہے ہیں۔
اس نظریے کے لوگوں نے اسٹیج پر کھلے عام اعلان بھی کیا ہے کہ ’خاص مذہب‘ کی خواتین کو قبر سے نکال کر ان کی عصمت دری کی جانی چاہیے۔
حال ہی میں مدھیہ پردیش کے اندور میں ایک سپا سینٹر پر چھاپہ مارا گیا، جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے تین یوتھ فرنٹ لیڈران 18 لوگوں میں شامل ہیں جنہیں قابل اعتراض حالت میں پکڑا گیا ہے۔ گرفتار ملزمان میں تھائی لینڈ کی سات نوجوان خواتین بھی شامل ہیں۔ یعنی یہ لوگ اب بیرونی ممالک میں ’خواتین کی عزت‘ کا جھنڈا لہرا رہے ہیں۔
جب بچے ایسے مخاصمانہ اور مخالف خاندانی، سماجی، سیاسی ماحول میں سانس لیں گے تو پھر چاہے وہ انجینئر بنیں یا میڈیکل کی تعلیم حاصل کریں، کمپیوٹر انجینئر بنیں یا سائنسداں، لیڈر یا خود ساختہ دھرم گرو۔ مذہبی اور ذات پات کا ہسٹیریا اس کے ذہن میں پیوست ہو چکا ہے۔
نفرت کے ماحول میں پلے بڑھے ایسے بچے اگر بلی بائی اور سلی ڈیل کے لیے درخواستیں نہ دیں تو کیا کریں گے؟
کتنی حیرت انگیز بات ہے کہ انجینئرنگ اور سائنس کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ان بچوں نے سماج و ملک کی ترقی کےلیے کام کرنےوالی اوراپنا کریئر بنانے والی کوئی ایپ بنانے کے بجائے خاص مذہب کی خواتین کی نیلامی کرنے والی ایپ بنانا زیادہ ضروری سمجھا؟
حالانکہ حکومت اور انتظامیہ اس معاملے میں ایکشن لے رہی ہے، کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا گیا ہے، لیکن سب سے سنگین سوال یہ ہے کہ ایسی ناقص سوچ اور ذہنیت کی جڑیں کہاں ہیں؟
ایک طرف عورتوں کی عزت، احترام اور لڑکی کی پوجا کرنا، دوسری طرف انہیں مذہب ذات کی نظر سے دیکھنا، انہیں غریب امیر کے زمرے میں تقسیم کرنا، ان سے دشمنی نکالنا یا جائیداد ہتھیانا۔ ان کو بھوت یا چڑیل کہنا وغیرہ تو اب جدید سائنس کا استعمال کرتے ہوئے موبائل ایپ پر ایک مخصوص مذہب کی خواتین کی عزت نیلام کرنے کی کوشش کی جائے گی، کیا اس کلچر اور ذہنیت کے لوگ ‘’بیٹی بچائیں گے‘ یا پھر لوگ خود ان سے ہی اپنی ’بیٹی بچائیں۔‘
(بشکریہ:ستیہ ہندی)