‘•••امریکہ کے مسلسل حملوں کے باوجود، ایرانی حمایت یافتہ حوثی متنوع ہتھیاروں کے ساتھ جوابی جنگ لڑ رہے ہیں۔ لیکن بڑھتے ہوئے امریکی حملوں سے لگتا ہے کہ واشنگٹن اپنے مہنگے ترین فوجی آپریشن کو جاری رکھنا چاہتا ہے’
امریکہ اور یمن کی عملاﹰ حکومت، جس کا کنٹرول ایران کی حمایت یافتہ حوثی ملیشیا کے ہاتھوں میں ہے، کے درمیان تنازعہ بڑھتا جا رہا ہے۔ حالانکہ واشنگٹن نے اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔۔”دریں اثنا، سینٹ کوم نے پہلی بار مارچ کے وسط میں "آپریشن رف رائڈر” کے نام سے امریکی کارروائی کے آغاز کے بعد سے حوثی اہداف پر حملوں کی تعداد کا انکشاف کیا۔ اس نے یہ تعداد 800 بتائی۔سینٹ کام کے ترجمان، ڈیو ایسٹ برن، نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ ان حملوں میں سینکڑوں حوثی جنگجو اور متعدد حوثی رہنما مارے گئے ہیں، جن میں حوثی میزائل پروگرام اور یو اے وی کے سینئر اہلکار بھی شامل ہیں۔لیکن انہوں نے نہ تو ان کے نام بتائے اور نہ ہی کوئی ثبوت پیش کیا۔
اس دوران اے پی نے اطلاع دی ہے کہ حوثی ملیشیا، جو سرکاری طور پر خود کو انصار اللہ کہتی ہے، گزشتہ ہفتوں میں کم از کم سات امریکی ایم کیو نائن ریپر ڈرونز کو تباہ کرنے میں کامیاب رہی جس کی مالیت 200 ملین ڈالر سے زیادہ تھی۔
ادھر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق حوثیوں کے خلاف موجودہ امریکی آپریشن کی کل لاگت پہلے ہی ایک بلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے۔
یہ حوثیوں کے خلاف امریکہ کی اس لڑائی کو سب سے مہنگا امریکی فوجی آپریشن بناتا ہے جب کہ اس کا جلد ختم ہونے کا بھی امکان نہیں نظر آتا ہے۔
دریں اثنا، حوثی غزہ میں حماس اور فلسطینیوں کی اپنی علانیہ حمایت کے تحت بحیرہ احمر میں جہاز رانی پر حملے اور اسرائیل پر طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور ڈرون حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔حوثیوں کے پاس دو فضائی دفاعی نظام موجود ہیں۔ ہنز نے کہا، "جب انہوں نے 2015 میں ملک میں اقتدار سنبھالا تو انہوں نے یمنی فوج سے کچھ پرانے فضائی دفاعی نظام حاصل کیے۔” انہوں نے مزید کہا، "اسی کے ساتھ، یقیناً، وہ ایران سے بھی ہتھیارحاصل کرتے رہے ہیں، جس میں "358” میزائل سسٹم (سطح سے فضا میں مار کرنے والے میزائل) بھی شامل ہیں، جو کہ ایرانیوں نے خاص طور پر MQ-9 ریپر کو مار گرانے کے لیے تیار کیا تھا۔”