تحریر:شعیب رضافاطمی
خاموش……! بالکل خاموش!
تمہارا کام صرف میرا حکم ماننا ہے۔ اپنے فرائض کو فراموش کر دو کیونکہ میں تمہیں حکم دے رہا ہوں. اور میں وہ ہوں جس کی کرم فرمائی سے تم اس عہدے پر بیٹھے ہو اور اس وقت تک بیٹھے رہوگے جب تک خاموش رہوگے. یاد رکھو اب نظام بالکل بدل چکا ہے. اب تم کو اس فرض کی ادائیگی پر اعزاز سے سرفراز نہیں کیا جائے گا جو فرائض کتابوں میں درج ہیں۔اب تمہیں اعزاز اس پر ملیگا کہ تم نے خاموش رہ کر صرف میرے اشارے پر عمل کیا۔ یقیناً تم میں سے اکثر افراد کا ضمیر انہیں کچوکے لگائے گا اور وہ زبان کھولنے کی کوشش کرینگے لیکن تمہیں اپنی آنکھیں کھول کر پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ تمہارے آس پاس کیا ہو رہا ہے۔ کیا تم نے دیکھا نہیں کہ تمہارے کتنے بڑوں کا راہ چلتے ایکسیڈنٹ ہوگیا، کسی نے خود کشی کر لی، اور کوئی سردرد کی شکایت لے کر ہسپتال گیا اور پھر کبھی واپس نہیں آیا. تم کو دیکھنا ہوگا کہ جو ضمیر آج تمہیں کچھ کرنے کے لئے اکسا رہا ہے وہ ضمیر تمہارے بعد کیا تمہارے بچوں کی ضرورتوں کو بھی پورا کریگا. تمہارے آرام و آسائش میں پلنے والے بچے کیا بے روزگاری کی شاہراہ پر چند قدم بھی دوڑ سکیں گے..؟ اس لئے تمہیں خاموش رہنا ہوگا۔
ممکن ہے تمہیں یہ گمان ہو کہ اقتدار تو آنی جانی شئے ہے اور ملک کا ماحول اب بدلنے لگا ہے تو یہ صرف تمہاری غلط فہمی ہے۔ اقتدار کا صرف چہرہ بدلتا ہے ممکن ہے رنگ بھی بدل جائے لیکن اقتدار کی قوت کبھی کم نہیں ہوتی اس میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور کوئی بھی صاحب اقتدار اپنی قوت کو کم کرنا نہیں چاہتا، اس لئے جہاں ہو جیسے ہو چپ رہو اور آنکھیں کھول کر صرف میرے اشاروں کے کوڈ کو ڈی کوڈ کرتے چلے جاؤ۔
یاد رکھو کہ ابھی بہت سارے ہنگامے باقی ہیں۔ تمہارے آس پاس ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اور کبھی کبھی تم کو یہ محسوس ہونے لگیگا کہ تم جس اشارے کو حکم سمجھ رہے تھے وہ سارے اشارے محض تمہارا وہم تھے اور یہی وہ وقت ہوگا جب تم اپنی رول بک، ملک کا آئین اور اپنے فرائض کا موازنہ کرنے کی کوشش کروگے، لیکن یہ سب تمہاری تربیت اور تعلیم کی وہ خامی ہوگی جو تمہارے اندر برسوں سے سرایت کر گئی ہے۔ تم صرف آج ہو۔ نہ کل تمہاری کوئی حیثیت تھی اور نہ کل تمہارا وجود رہےگا۔ تم صرف آج ہو اور وہ بھی اس وقت تک جب تک تم چپ رہ کر میرے اشاروں کو سمجھ رہے ہو اور اس پر عمل بھی کر رہے ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ تمہاری اس خاموشی کا الگ سے کوئی معاوضہ نہیں ہے۔ ہے اور بالکل ہے۔ اور وہ تمہیں دیا جائے۔ تمہارے جیسے بہت سارے لوگ اس معاوضہ کو لے کر اپنے عہدوں سے سبکدوش ہو چکے ہیں اور وہ نہایت خوش و خرم زندگی گزار رہے ہیں۔ اور کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بدحال اور پریشان تبادلے کا عذاب جھیل رہے ہیں یا جیل کی سلاخوں کے پیچھے بیٹھے جیل ڈائری لکھ رہے ہیں انہیں اندازہ بھی نہیں کہ وہ اگر کبھی جیل کے باہر آ بھی گئے تو ان کی اس جیل ڈائری کو چھاپنے والا کوئی پبلشر بھی انہیں نہیں ملےگا۔
تم کو یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ میں نے جو کہا وہی کیا۔ اور جو اب کہہ رہا ہوں وہی کروںگا۔ میں ہر اس یاد کو کھرچ دوںگا جس کو دیکھ کر اگلی نسل کسی کے بارے میں اچھی رائے قائم کرے۔ میں وہ ہوں کہ جس کی پیشانی پر انگریزوں کی وفاداری کاٹیٹو بنا دیا گیا تھا. حالانکہ میں انگریزوں کا وفادار کم اور ان کا دشمن زیادہ تھا جن لوگوں نے ہمارے ہی وطن میں ایک ساجھی وراثت کی بنیاد ڈال کر ہمیں بنیاد پرست قرار دے دیا تھا۔ ہاں! میں بٹوارہ چاہتا تھا۔ لیکن ایک ایسا بٹوارہ جس میں کسی کی کوئی شراکت نہ ہو۔ نہ ملک میں، نہ اس کی تہذیب میں، نہ اس کی زبان میں، نہ مذہب میں۔
لیکن اس بٹوارے کے خواب کی تعبیر یکسر بدل دی گئی اور میں بے دست و پا اپنے خواب کو لٹتے دیکھتا رہا، لیکن میں نے ہار نہیں مانی اور لڑاتا رہا۔ اور آخر اسی جنگ سے پیدا ہوا ایک کھنڈہر جس کو جھاڑ پونچھ کر میں نے سیاست کے گربھ میں ڈال دیا اور دیکھتے دیکھتے وہ گربھ ایک خوبصورت تعبیر کی شکل میں سامنے آ گیا۔ اور اب جب میرا خواب تعبیر کے پھل دینے لگا ہے تو تم جیسے لوگوں کا ضمیر جاگنے لگا ہے۔
خبر دار…… زبان مت کھولنا… چپ رہنا تمہارے حق میں ہے۔
دیش کیا ہے..؟ ایک لکیر کے اندر کی وہ دھرتی جسے کسی نے کسی سے کبھی چھین لی تھی اور اسے اپنی دھرتی کہنے لگا۔ تم اسے اپنی دھرتی سمجھتے ہو کیونکہ تم نے اس پر جنم لیا ہے۔ تم کیا جانو تم جسے پوتر کہتے ہو اس پر کتنے نیک لوگوں کا خون بہا ہے اور وہ اس لئے کہ انہیں بھی یہ یقین تھا کہ یہ دھرتی ان کی ہے۔لیکن اب وہ سب کہاں ہیں۔ تاریخ میں صرف ان لوگوں کے نام ہیں جنہوں نے اس دھرتی پر قبضہ کیا۔ کچھ ہار کر امر ہو گئے اور بہت سارے جیت کر بھی بے نشان ہو گئے لیکن نہ ہارنے والوں کے سپاہی یاد کئے جاتے ہیں اور نہ جیتنے والوں کے۔ انہیں بھی بولنے کی اجازت نہیں تھی۔ تم بھی صرف پیادے ہو کمانڈر جو کہے اسے مانو ورنہ میدان جنگ میں چلنے والی گولیاں صرف دشمن کے سینے کی طرف نہیں داغی جاتیں بلکہ کچھ گولیاں اپنے اس پاس بھی چلانی پڑتی ہیں تاکہ قتل و خون کے اس کھیل کو بیچ میں ہی روک کر کوئی سپاہی فرار نہ اختیار کر لے۔
اس لئے جب کبھی تم نے یہ طے کر لیا کہ
’بولنا تو پڑے گا‘ وہ تمہارا آخری دن ہوگا ۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)