سنبھل: اترپردیش کے سنبھل ضلع کی شاہی جامع مسجد میں سروے کے دوران ہوئے تشدد کے سلسلے میں پولیس نے درجنوں افراد کو گرفتار کرنے ساتھ سیکڑوں افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے جن میں ممبر پارلیمنٹ ضیا الرحمن برق بھی شامل ہیں اسی کے ساتھ شاہی جامع مسجد کمیٹی کے چیئرمین ظفر علی کو پولیس نے حراست میں لے لیا۔ ظفر علی نے کچھ دیر پہلے ایک پریس کانفرنس میں ایس ڈی ایم سنبھل کو سنبھل میں ہوئے تشدد کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ اور نابالغوں کی گرفتاری کا دعویٰ کیا تھااپنی گرفتاری پر ظفر علی نے کہا کہ میرا قصور کیا ہے، یوپی پولیس نے کہا کہ میری سرگرمی مشکوک تھی، اسی لیے مجھے حراست میں لیا جا رہا ہے۔ دریں اثنا، یوپی پولیس نے اے بی پی نیوز کو بتایا کہ مسجد کمیٹی کے صدر کو اس مرحلے پر صرف پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔ پولیس نے بتایا کہ تشدد کے سلسلے میں گرفتار 15 نامزد ملزمان کو منگل کو عدالت میں پیش کیا جائے گا۔ دریں اثنا تشدد میں اب تک پانچ لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ دو الگ الگ تھانوں میں کل 12 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ 25 افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس کی ایف آئی آر میں تقریباً 2500 افراد نامعلوم ہیں اور 8 نامزد ہیں، تشدد کی جانچ پر تبصرہ کرتے ہوئے سنبھل کے ضلع مجسٹریٹ راجندر پنسیا نے کہا کہ ہمیں لگتا ہے کہ راتوں رات اس کی منصوبہ بندی کی گئی ہو گی۔ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے ۔ تاہم جب تفصیل سے جانچ کی جائے گی تو حقیقت پتہ چلے گی۔ یہ بھی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ تشدد کے دوران جن چار افراد کی موت ہوئی ہے، وہ پولیس کی گولی سے نہیں ہوئی بلکہ بلکہ طمنچہ کی گولی سے ہوئی ہے۔
پولیس نے سنبھل کے ایم پی ضیاء الرحمان برق اور سنبھل ایم ایل اے کے بیٹے کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی ہے۔ ایس پی کرشنا کمار نے کہا کہ تشدد اشتعال انگیز بیان کی وجہ سے ہوا۔ یہاں تک کہ پولیس کا میگزین بھی لوٹ لیا گیا۔ مراد آباد زون کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس منیراج جی نے پیر کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ اتوار کو تشدد میں زخمی ہونے کے بعد مراد آباد میں زیر علاج ایک اور شخص کی موت ہو گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جلد ہی لاش کا پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔