ایڈووکیٹ ابوبکر سباق سبحانی
دہلی ہائی کورٹ نے دہلی دنگوں کی سازش کے الزام میں ایک سال سے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے تین طلبا کو یو اے پی اے کی دفعات کے تحت درج مقدمات میں ضمانت دے کر ایک بار پھر سخت قوانین کے غیرقانونی و سیاسی استعمال پر سوالات کھڑے کردیے ہیں۔ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں صاف الفاظ میں کہا ہے کہ جمہوریت کے لئے یہ صدمے کی گھڑی ہے کہ حکومت اپنے خلاف ہونے والے احتجاجات و اختلاف رائے کو کچلنے کے لئے دستور کے ذریعے فراہم کی گئی آزادی وحق برائے احتجاج نیز دہشت گردانہ سرگرمیوں کے مابین فرق دھندلا ہو جائے، اگر دہلی کی یونیورسٹی میں کچھ طلبا و افراد حکومت کی پالیسیوں یا کسی قانون کے خلاف اپنی رائے کو پیش کرنے کے لئے احتجاج کرتے ہیں تو یہ احتجاج چاہے جتنے بھی سخت کیوں نا ہوں ان احتجاج کو دہشت گردی نہیں کہا جاسکتا ہے اور نا ہی دہشت گردی سے نبٹنے کے لئے بنائے گئے قوانین کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔
یہ احتجاج سی اے اے اور این آرسی کے خلاف ہورہے تھے، جو کہ دراصل ہمارے ملک ہندوستان میں شہریت کے قانون میں ہونے والی ترمیمات کے خلاف عوام کا اظہار خیال تھا، دستور کے آرٹیکل 19 کے تحت ہر شہری اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا حق رکھتا ہے، یہ اظہار رائے احتجاج کی صورت میں بھی ہوسکتا ہے لیکن شرط صرف یہ ہے کہ احتجاج جمہوری انداز میں پرامن طریقوں سے کئے جائیں، تاہم کوئی بھی احتجاج تشدد کی نظر بھی ہوسکتا ہے، تشدد یا بدامنی کی صورت میں تشدد کرنے والوں کے خلاف حکومت قانونی کاروائی کرسکتی ہے کیونکہ امن و امان کا قیام حکومت کی ذمہ داری ہے، تاہم تشدد کی صورت میں عمومی فوجداری قوانین کا استعمال ہوتا ہے نا کہ دہشت گردانہ سرگرمیوں یا ملک مخالف کا الزام لگا کر یواےپی اے قانون کا استعمال ہوگا۔
احتجاج کرنے والوں کے خلاف یو اے پی اے کی دفعات 15(دہشت گردانہ سرگرمیاں)، 17(دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے مالی تعاون کرنا)، 18(دہشت گردانہ سرگرمیوں کے لئے سازش کرنا) کے تحت مقدمہ درج ہوا، ہائی کورٹ کے فاضل جج انوپ جئے رام بھمبھانی نے اپنے فیصلے میں سوال اٹھائے کہ دفعہ 15 میں دہشت گردی کی تعریف بیان کی گئی ہے جو کہ بہت مبہم اور وسیع ہے، جب کہ ہزاروں صفحات پر مبنی دہلی پولیس اسپیشل سیل کی چارج شیٹ میں کوئی بھی دہشت گردانہ سرگرمیوں کا مخصوص الزام عائد نہیں کیاہے، چارج شیٹ کے مطابق سی اے اے قانون کے خلاف احتجاج کرنا ہی دہشت گردانہ کاروائی تھی جب کہ ان تینوں طلبا کے اوپر ایسا کوئی الزام نہیں تھا کہ انہوں نے تشدد کے لئےاکسایا یا بھڑکایا ہو، جب کہ دستور ہند کے مطابق ایسا کوئی بھی قانون دستور کی روح کے خلاف ہوگا جس میں مذہب کی بنیاد پر تفریق کی گئی ہو، جب کہ سی اے اے قانون میں مذہب کی بنیاد پر حکومت نے تفریق کرتے ہوئے قانون بنایا تھا جس کے خلاف سیکڑوں پٹیشن سپریم کورٹ آف انڈیا میں داخل کی گئی تھیں جو ابھی تک زیر التوا ہیں، وہیں دوسری جانب احتجاج بذات خود حکومت وقت سے یہ التجا کررہے تھے کہ مذہب کی بنیاد پر بنائے گئے قوانین پر نظرثانی کی جائے۔
دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے نے دہشت گردی کوسپریم کورٹ کے متعدد تاریخی فیصلوں کی روشنی میں واضح کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ دہشت گردی کی تعریف نیز ان کالے قوانین کے غلط استعمال کوسمجھا جاسکے، سپریم کورٹ نے 1994 میں ہریندروشنو ٹھاکر کے فیصلے میں کہا تھا کہ ہر دہشت گرد تو کرمنل ہوسکتا ہے تاہم کسی بھی کرمنل کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے دہشت گردانہ سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے بنائے گئے قوانین کی سخت دفعات کا استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس کیس میں ٹاڈا کی سخت دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے 2004 میں پی یو سی ایل کے تاریخی فیصلے میں دہشت گردی کی تعریف کو واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کا مطلب ملک کی سالمیت و بقا کے لئے خطرات پیدا کرنا ہے، ملک کے اتحاد و سالمیت کو نقصان پہنچانا ہے، اقتدار اعلی کو چیلنج کرنا ہے، عام عوام میں دہشت گردانہ کاروائیوں کے ذریعے خوف و ہراس کا ماحول پیدا کرنا ہے، ملک کے سیکولر ماحول کے لئے خطرہ بن جانا دہشت گردی ہے، جمہوری طرز سے منتخب عوامی حکومت کو اکھاڑ پھینکنا یا غیر قانونی و غیردستوری طریقے سےجمہوری و دستوری حکومت کا تختہ پلٹ کرنے کی کوشش کرنا دہشت گردی ہے، ملک کے معاشی و اقتصادی ارتقا کو روکنا دہشت گردی ہے۔
سپریم کورٹ نے ۲۰۱۳ میں یعقوب میمن کے فیصلے میں دہشت گردی کی تعریف کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا تھا کہ عام قتل عام کے خطرات و خدشات پیدا کرنا، اغوا کی کاروائیاں، جہاز ہائی جیک، بم پھوڑنا، عمارتوں کو بم سے منہدم کرنا، خطرناک خطرات پیدا کرنے والی اشیا کا استعمال یا عمل درآمد و برآمد، کمپیوٹر یا کیمیکل و بایولوجیکل ہتھیاروں سے حملے کرنا، نیوکلئیر ہتھیار، یا عوامی قتل عام کے ہتھیاروں کا استعمال کرنا یا کرنے کی کوششیں یا تیاریاں کرنا دہشت گردی ہے۔
آج یہ بحث بہت اہم ہوجاتی ہے کہ آخر کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر شہریت کے قوانین میں ترمیمات کے خلاف ہونے والے احتجاج میں سرگرم طلبا لیڈران کے خلاف سخت کالے قانون یو اے پی اے کی دفعات کے تحت مقدمات درج کئے گئے؟ یو اے پی اے جیسے قوانین کو کالا قانون اس لئے کہا جاتا ہے کیوں کہ اس قانون کی دفعہ 45 D (5) کے تحت ضمانت نہیں دی جاسکتی ہے، یعنی اگر کسی کے خلاف یو اے پی اے قانون کی دفعات ایک بار درج کرلی جائیں تو وہ ضمانت پر رہا نہیں کئے جائیں گے، یہی وجہ ہے کہ ان تمام ہی ملزمین کو دیگر تمام ہی مقدمات میں ضمانت پہلے ہی مل چکی تھی تاہم ایک اسی مقدمے میں ضمانت نہیں مل رہی تھی، تو کیا یہ حکومت کا ایک پیغام تھا ان تمام ہی افراد کے لئے جو حکومت کے غلط اقدامات کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کی ہمت رکھتے ہیں کہ اگر حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کوئی آواز بلند کرے گا تو اس کو سخت قوانین کے تحت مقدمات درج کرکے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈھکیل دیا جائے گا جہاں سے باہر آنے کی امید بھی نہیں رہے گی۔
دہلی ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں2018 میں سپریم کورٹ کے ایک دیگر اہم فیصلے مزدور کسان سنگھرش سمیتی کا تذکرہ بھی کیا ہے جس میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ کسی بھی جمہوریت کی سب سے اہم خصوصیت اختلاف رائے کا موجود ہونا ہوتا ہے، دستور کا آرٹیکل 19اختلاف رائے یا احتجاج کرنے کا حق یقینی بناتا ہے، احتجاج کرنے والوں کی مانگیں صحیح ہوں یا غلط۔ احتجاج اگر تشدد کا شکار ہوجائے تو عمومی فوجداری قوانین کا استعمالہوگا، لیکن اگر حکومت یہ چاہے کہ عوام اس کے خلاف اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے کے لئے دستوری حقوق سے بھی دستبردار ہوجائیں تو پھر جمہوریت نہیں بلکہ جمہوریت کا چولہ اوڑھے ایک ایسی آمریت ہمارے ملک کو اپنے سائے میں لے لےگی جہاں عوام کو ووٹ دینے یا حکومت کا انتخاب کرنے کا کاغذی حق تو ہوگا لیکن حکومت کی مضر پالیسیوں پر اظہار خیال کرنے یا اپنی منتخب کی ہوئی حکومت سے سوال کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ یقینا ایسے سخت قوانین کے غلط استعمال کے خلاف عوام میں بیداری پیدا ہونی چاہیے، صرف الزامات کی بنیاد پر سالہا سال تک ملزمین کو جیل میں رکھنا انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے، ہمارے ملک میں ایسے بہت سے مقدمات ہیں جن میں سماجی کارکنان و علمی شخصیات کو یواےپی اے کی سخت دفعات کے تحت برسوں سے جیلوں میں سیاسی اختلافات کی بنیاد پر قید رکھا گیا ہے جو آج بھی انصاف کا انتظار کررہے ہیں اور نظام عدلیہ پر پوراپورا بھروسہ رکھتے ہیں لیکن جسٹس انوپ بھمبھانی اور جسٹس سدھارتھ مریدول جیسے ایماندار اور جرات مند جج ہماری عدلیہ میں موجود نہیں ہیں۔