تحریر: مکل کیسون
ترجمہ:نایاب حسن
گزشتہ سوسالہ عالمی تاریخ کی سب سے خطرناک ہیلتھ ایمرجنسی کے دوران حکومت کا کمبھ میلے کی اجازت دینا اور کورونا کی دوسری لہر،بلکہ سونامی کے باوجود اس میلے پر روک لگانے میں کوئی دلچسپی نہ لینا نہایت اہم سوال پیدا کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نریندر مودی معقولیت پسند ی کے ساتھ اقدامات کرتے ہیں؟ معقولیت پسندی سے مراد یہاں سیکولرزم یا ترقی پسندی نہیں ہے۔ سیدھا سا سوال یہ ہے کہ اگر ہم مودی کے اکثریت پسندانہ مزاج کو تسلیم بھی کرلیں،تو کیا ان کی سیاسی پالیسیاں بہتر معلومات اور درست طرزِ عمل پر مبنی ہیں؟ کیا وہ محض اس ملک کی اقلیتوں کو ہر شعبے میں محروم رکھ کر ہی یہاں کی اکثریت کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں؟کمبھ میلے کے انعقاد سے یہ سوال اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ جب2020 کے خاتمے کے بعد مختلف اکھاڑوں نے ایک سال قبل ہی اس کے انعقاد پر اصرار کرنا شروع کیا، تو اس کی وجہ سے وبا کے دوبارہ پھیلنے کا قوی امکان تھا، لیکن مرکز کی مودی حکومت اور ریاست اتراکھنڈ کی بی جے پی حکومت نے بلا کسی روک ٹوک اور پابندی کے سیکڑوں ہزاروں لوگوں کے اجتماع کی اجازت دے دی جس سے عوامی صحت کے شعبے میں ایک حشر انگیز سانحہ رونما ہوگیا اور اس کی وجہ سے پورے ملک کے شہریوںکی زندگیاں خطرے میں پڑ گئیں،کیوںکہ یہ وائرس اپنی فطرت میں سیکولر ہے اور یہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کرتا۔ آخر وزیر اعظم نے کیوں کر اس کی اجازت دی؟ ایک بڑے حلقے میں مودی کو جدت پسند سمجھا جاتا ہے اور ان کے اہم سیاسی اقدامات مثلاً نوٹ بندی،جی ایس ٹی،کسان بل اور ڈیجیٹائزیشن وغیرہ سے آپ اتفاق رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں،مگر ان کا ہدف معقول تھا۔معقول ہدف کے تحت یہ اقدامات کیے گئے تھے، لیکن کمبھ میلے کی اجازت دینا صحت عامہ کی معقول پالیسی کے نقطۂ نظر سے درست نہیں کہا جاسکتا۔ ریاست کے وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت نے بھی اس سلسلے میں کوئی کوشش نہیں کی؛بلکہ انھوں نے تو یہ اعلان کردیا کہ گنگا کا مقدس بہاؤ کورونا کے پھیلاؤ کو روک دے گا۔ پھر ہزاروں لاکھوں کی بھیڑ جمع ہوتی اور اشنان کرتی رہی ، مودی انتظار کرتے رہےاور جب کورونا پھیلے ہوئے ہفتہ بیت گیا تب مودی نے جونا اکھاڑا کے اودھیشانند گیری سے عاجزانہ وعقیدت مندانہ درخواست کی کہ وبا کی وجہ سے میلے کا دائرہ محدود کردیا جائے۔ آخر وزیر اعظم اپنے آپ کو کیوں اس کمزور متوسلانہ پوزیشن میں رکھنے پر مجبور ہوئے؟ اس کا واضح اور درست جواب یہی ہوگا کہ مودی یہ سمجھتے ہیں کہ ایک ہندو اکثریت والے ملک میں ہندو آستھاؤں کے مطابق چلنا ہی بہتر ہے۔ مودی کے جارح ناقدین انھیں ’سودے باز‘ کہتے ہیں مگر کمبھ میلے پر مودی کی پوزیشن رام مندر پر ان کی پوزیشن کے مماثل ہے۔ لاکھوں ہندوؤں کا یہ ماننا تھا کہ ایودھیا رام کی جنم بھومی ہے تو اسے حقیقت مان لیا گیا اور صورتِ حال کی تشکیلِ نو اسی عقیدے کے مطابق کی گئی ،یہاں بھی وہی طرزِ عمل اپنایا گیا۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے ابتدائی مہینوں میں مودی نے ممبئی میں ڈاکٹروں کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے قدیم ہندوستان میں سرجری کے ان ماہرین کو یاد کیا تھا، جنھوں نے ایک ہاتھی کا سر انسانی جسم سے جوڑ کر گنیش کو بنایا تھا۔ وہ سشروت ( جو آٹھویں صدی قبل مسیح کے ایک تاریخی اور ویژنری شخصیت تھے اور جنھیں بابائے سرجری کہا جاتا ہے ) کا حوالہ دے سکتے تھے؛ لیکن انھوں نے تربیت یافتہ ڈاکٹروں کے اجتماع کو جوش دلانے کے لیے ایک واضح طور پر ناممکن لوک کہانی کا حوالہ دیا۔ انھوں نے یہ کام اس لیے کیا کہ اکثریت پسندوں کے نزدیک سول سوسائٹی کے گروپوں ، خاص طور پر پیشہ ور افراد کے گروہوں کو یہ تعلیم دینا ضروری ہے کہ جدیدیت اور سائنس پختہ تہذیبی اعتقادات کے حامل ہونے چاہئیں اور یہی اعتقادات احترام کے جذبے کے ساتھ سائنسی حلقوں میں پھیلائے جانے چاہئیں ۔ ہندوستانی سائنس کانگریس کے 2019 سیشن میں ایک مقالے میں دھرتراشٹر کے سو بیٹوں کے حوالے سے قدیم ہندوستان میں اسٹیم سیل ریسرچ کا ثبوت پیش کیا گیا تھا۔ چنانچہ جب اکھاڑا کے نجومیوں نے اپنے چارٹس پڑھے اور اعلان کیا کہ ستاروں کے مُحاذات سےیہ اشارہ ملا ہے کہ اس بار کمبھ میلہ عام طورپر بارہ سالہ چکر کی بجاے گیارھویں سال میں ہی منعقد کیا جائے تو مودی نے وبائی صورت حال کے باوجود ان کی بات مان لی۔ اپنے سیاسی اعتقادات کے پیش نظر اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ ہندوؤں اور مقدس شخصیات کے اس اہم اجتماع کو صحت عامہ جیسی دوسرے درجے کی چیز کی وجہ سے کیسے روکا جاسکتا ہے؟ ایک غیر مرئی ذرہ(وائرس)کی وجہ سے تطہیر و تذکیے کی ثقافتی رسم کو روکنے والا ہندو راشٹر آخر کیسا ہوگا؟مودی کا مذاق اڑانے والے سیکولرلسٹ انھیں ایک جدید آمرکے طور پر دیکھتے ہیں جو مذہب کو آلے کے کے طورپر استعمال کرتا ہے، حالاں کہ وہ غلط ہیں۔ وہ مودی کو وی ڈی ساورکر کے ساتھ خلط ملط کر رہے ہیں۔ ساورکر ایک ملحد دانشور تھا ، جس نے ہندو تحریک کے پردے میں نسلی قوم پرستی کا فریب دیا۔ مودی جو ساورکر کے مقابلے میں زمین سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں ، بھگوا بردوش سادھووں کے تئیں اس لیے عقیدت رکھتے ہیں کہ انھیں احساس ہے کہ ان سادھووں کے پاس ایک مذہبی استناد اور عوامی گرفت ہے جو ایک پیشہ ور سیاست دان ہونے کی وجہ سے ان کے پاس نہیں ہے۔ اس پر بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ بی جے پی کے اندر اور اس سے باہر کے سادھو اور سادھوی مودی کی مقبولیت کے لیے خطرہ ہیں۔ اسی سے یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ مودی ہندوستان میں ہندووں (ہندو راشٹر)کو استحکام بخشنے کے لیے سادھووں کو آگے رکھنا کیوں ضروری سمجھتے ہیں ۔آدتیہ ناتھ کو اترپردیش کا وزیر اعلی بنانے کی وجہ یہی ہے کہ بھگوا لباس میں ملبوس انسان کے لیے اکثریت پسندی کو عمومیت بخشنا اور اسے عوامی گفتگو کا حصہ بنانا آسان ہے، جبکہ اس کے برخلاف کورٹ پینٹ والا متعصب ہندو بھی یہ کام اتنی آسانی سے نہیں کر سکتا ۔ جس طرح بی جے پی نے اترپردیش سے کیرالا تک کی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں آدتیہ ناتھ کو ایک سیاسی تعویذ اور لوگوں کو پارٹی کے حق میں ہموار کرنے کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا ہے ، اس سے ظاہر ہے کہ ان کا کام یہ ہے کہ ایسی باتیں بھی کہیں جو کبھی نہیں کہی گئیں۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو بی جے پی میں موجود مختلف سادھویوں اور سنتوں نے گوڈسے کی تعریف کرنے سے لے کر’رامزادے‘ اور ’حرامزادے‘ جیسی باتیں کرکے مستقل طورپر انجام دیا ہے۔جنوبی ایشیا کے لبرلز اپنی اپنی قوموں؍ملکوں کی سیاست پر جزوی توجہ مرکوز رکھتے ہیں،جبکہ اکثریت پسند سیاستدانوں کو اپنے پڑوس کے ہم خیال فرقہ پرستوں کے بارے میں زیادہ وسیع پیمانے پر آگاہی رہتی ہے۔ میانمار میں بودھ بھکشوؤں کے زیر سرپرستی چلنے والی واضح طور پر مسلم مخالف تنظیم 969 کا تعلق سری لنکا کی ’بوڈو بالا سینا ‘سے بھی ہے،جو سری لنکا میں بودھ اسلحہ برداروں کی تنظیم ہے ۔ میانمار میں نسل ، مذہب ، اور عقیدے کے تحفظ سے متعلق تنظیم ، جسے ما-با-تھا ( برمی نام کا مخفف) کے نام سے جانا جاتا ہے ، اس نے 2013 میں نسل اور مذہب کے تحفظ کا قانون پاس کرانے کے لیے کمپین چلایا ۔دو سال کی قلیل مدت میں وہاں کی مجلس قانون ساز نے اسے پاس کردیا اور صدر کے دستخط کے ساتھ یہ قانون بن گیا۔ میانمار کی مسلم اقلیت کو دبانے اور مسلمانوں کی نسلی تطہیر میں وہاں کے بدھست مذہنی طبقے کی حصے داری بارڈر کے اِس پار(ہندوستان میں ) بھی نوٹس کی گئی۔ ہندو مذہب میں منظم مذہبی ادارے کی کمی ہے، اس کے پاس بدھست سنگھ جیسی چیز نہیں ہے، لیکن زاہدانہ لباس پہننے والے مردوں اور عورتوں کی معاشرے پر ہمیشہ چھاپ رہی ہے اور اس وقت تو سب سے زیادہ ہے۔ جوبے وقعت لبرلز کے برخلاف مودی اس بھگوا کیڈر کی طاقت اور سیاسی رسوخ کو پہچانتے ہیں اور جیساکہ آدتیہ ناتھ کے عروج سے سمجھ میں آتاہے ، وہ اسی کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔ پانچ سال پہلے ایک صحافی نے مجھے بتایا تھا کہ اگر مودی کبھی ناکام ہوجاتے ہیں، تو ان کی جگہ ان کے دائیں طرف موجود ، ان سے زیادہ داڑھی والا اور ان سے زیادہ ہندو دکھائی دینے والا شخص لے گا۔ ان کے ذہن میں بابا رام دیو تھے، خاص طور پر اس سلسلے میں تو وہ غلطی سے دوچار تھے ، مگر آدتیہ ناتھ کے کیریئر سے پتہ چلتا ہے کہ وہ مودی کے سفر کی عمومی سمت کے بارے میں صائب الرائے تھے۔لیکن آدتیہ ناتھ کو زیادہ پر امید نہیں ہو نا چاہیے۔ اگر مودی کسی کو اپنی جگہ دینا چاہیں گے ، تو وہ خود ان کا اپنا نیا اوتار ہوگا۔ سنہ 2019 میں عام انتخابات کے دوران مودی کی کیدارناتھ کے ایک غار میں بھگوا چادر ڈالے مراقبہ کرتے ہوئے ایک تصویر وائرل کی گئی تھی۔ اگر فنی نقطۂ نظر سے اس پر کوئی تنقید ہوسکتی تھی، تووہ یہ کہ ہمالیہ کے سنیاسیوں جیسا نظر آنے کے لیے ان کے بالوں اور داڑھی کو بہت چالاکی سے تراشا تو گیا تھا،مگر اس میں کچھ کسر رہ گئی تھی، اب وہ کسر دور ہوگئی ہے۔ وزیر اعظم نے اپنے بالوں اور داڑھی کو بڑھا لیا ہے اور اگر وہ دوبارہ اپنے آپ کو بھگوا چادر میں لپیٹتے ہیں تو ان کی سادھوانہ وجاہت کے سامنے یوگی پھیکے پڑ جائیں گے ۔یہ چیز مجھے بکھرتی معیشت اور بڑھتے ہوئے وبائی بحران کے دوران وزیر اعظم کے فیصلوں میں نظر آتی ہے۔وہ بابا رام دیو جیسا خاص اور نمایاں طرزِ عمل نہیں اختیار کرتے،اس سلسلے میں کافی محتاط ہیں۔میرے خیال میں وہ سد گرو کے مشرقی دانشوروں والے نارنگی ڈریس کوڈ کو اپنانا پسند کریں گے۔میں ایک خیالی گروپ فوٹو دیکھ رہا ہوں کہ نریندر مودی بھگوا لباس پہنے بیٹھے ہیں، شری شری روی شنکر نے انھیں اپنے جلو میں لیا ہوا ہے،ان کے بائیں طرف سد گرو ہیں اور دائیں طرف بابا رام دیو اور یوگی آدتیہ ناتھ۔ اس گروپ فوٹو کا کیپشن ہے:سوامی اور ان کے دوست!
(مضمون نگار معروف تاریخ داں،ناول نگار،کالم نویس اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ اوریجنل انگریزی مضمون روزنامہ ٹیلی گراف میں 25؍اپریل کو شائع ہوا ہے)