سہیل انجم
نہ چاہتے ہوئے بھی ایک بار پھر افغانستان کے مسئلے پر قلم اٹھانا پڑا۔ اس کالم کی تحریک آسام پولیس کی کارروائیوں سے ملی ہے۔ اس نے مبینہ طور پر طالبان کی حمایت کرنے کی پاداش میں سولہ مسلمانوں کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کے خلاف انتہائی خطرناک قانون یو اے پی اے سمیت کئی دفعات کے تحت مقدمات قائم کر دیے ہیں۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ان مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر طالبان کی حمایت میں مواد پوسٹ کیا ہے۔ انھوں نے طالبان کی، جنھیں اس کے بقول دہشت گرد کہا جاتا ہے حمایت کرکے گویا دہشت گردی کی حمایت کی ہے۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے ان میں ایم بی بی ایس کا ایک اسٹوڈنٹ، آسام پولیس کا ایک کانسٹبل، ایک ٹیچر، ایک صحافی اور تین مولانا ہیں۔ پولیس کے مطابق پہلے اس کو یقین نہیں آیا کہ ایم بی بی ایس کا کوئی اسٹوڈنٹ بھی طالبان کی حمایت کر سکتا ہے۔ لیکن جب اس کی پوسٹ کا تجزیہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس کے خیالات انتہاپسندانہ ہیں۔ بہرحال ہمیں نہیں معلوم کہ پولیس کے اس دعوے میں کتنی صداقت ہے۔ کیا واقعی بعض مسلمانوں نے سوشل میڈیا پر ایسا مواد پوسٹ کیا ہے جو انتہائی خطرناک ہے۔ کیا واقعی انھوں نے طالبان کی ایسی مدح سرائی کی ہے کہ اس سے ملکی سلامتی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ کیا ان مسلمانوں کا رد عمل اتنا سنگین ہے کہ ان پر انتہائی خطرناک قانون یو اے پی اے لگا دیا جائے۔ یا پھر یہ کسی منظم منصوبہ بندی کے تحت کیا جا رہا ہے۔ کیا یہ کارروائیاں واقعی ضروری ہو گئی تھیں یا پھر ان کارروائیوں کا کوئی سیاسی مقصد بھی ہے۔ اس معاملے کی جب تک جانچ نہ کی جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن بہرحال کچھ بھی ہو پولیس کی یہ کارروائیاں تشویش پیدا کرتی ہیں۔
پولیس کی ان کارروائیوں کے بعد آسام کے مسلمانوں میں خوف و ہراس پیدا ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حالانکہ وہ طالبان کے حامی نہیں ہیں لیکن اب ان واقعات کی آڑ میں تمام مسلمانوں کو نشانہ بنایا جائے گا۔ انھیں اس بات کا اندیشہ ہے کہ مسلم دشمن قوتیں ان مبینہ سوشل میڈیا پوسٹس کے نام پر ریاست کا ماحول خراب کرنے کی کوشش کریں گی۔ یہ گرفتاریاں کسی ایک علاقے میں نہیں ہوئی ہیں بلکہ بارہ اضلاع میں کی گئی ہیں۔ گویا یہ معاملہ اگر بگڑتا ہے تو کم از کم ان بارہ اضلاع میں مسلمانوں کو مورد الزام ٹھہرا کر انھیں نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ہیمنت بسوا شرما کے ریاست کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد وہاں فرقہ وارانہ ماحول کو گرم کرنے کی کوششیں تیز ہو گئی ہیں۔ لہٰذا بعض مسلم تنظیموں نے جن میں آسام کے سرکردہ مسلمانوں کی ایک تنظیم ”آسام سول سوسائٹی“ بھی شامل ہے پولیس کی اس کارروائی کی مذمت کی ہے۔ تنظیم کے ایک ذمہ دار نے کہا ہے کہ ہم طالبان کی حمایت والی پوسٹس کی تائید نہیں کرتے اور ہم انتہا پسندی کے بھی کسی طرح حامی نہیں ہیں۔ لیکن انھوں نے اس اندیشے کا اظہار کیا ہے کہ چند لوگوں کی وجہ سے ریاست کے تمام مسلمان نشانے پر آسکتے ہیں۔ تنظیم نے ایک ایڈوائزری جاری کرکے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر ہونے والی ان حرکتوں پر نظر رکھیں ۔ اس کے ساتھ ہی تنظیم کا یہ خیال ہے کہ مسلمانوں کے ارد گرد ایک جال بنا جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو اس جال سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ گرفتار شدگان میں ایک مولانا فاضل کریم بھی ہیں جو مولانا بدر الدین اجمل کی پارٹی اے آئی یو ڈی ایف کے جنرل سکریٹری بتائے جاتے ہیں۔ لیکن اے آئی یو ڈی ایف کا کہنا ہے کہ بہت پہلے ہی انھیں معطل کر دیا گیا ہے۔
بہرحال آسام پولیس کی یہ کارروائی خطرے کی گھنٹی ہے۔ ایسی کارروایاں دوسری ریاستوں میں بھی ہو سکتی ہیں۔ بلکہ اترپردیش میں بھی ہوئی ہیں۔ وہاں کئی لوگوں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ تاہم ابھی تک کسی کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ لیکن کب کس کی گرفتاری ہو جائے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کیونکہ بہرحال طالبان کے نام پر ماحول کو گرمانے کی کوشش یو پی میں بھی شروع ہو گئی ہے اور دوسری ریاستوں میں بھی۔ آئندہ سال کے اوائل میں پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کے پیش نظر بی جے پی کو جذباتی ایشوز کی تلاش ہے اور طالبان کا معاملہ ایک جذباتی ایشو بن سکتا ہے۔ ادھر مدھیہ پردیش کے ایک بی جے پی لیڈر رام رتن پیال سے جب ایک صحافی نے مہنگائی اور تیل کے داموں میں بے تحاشہ اضافے پر سوال کیا تو انھوں نے اسے طالبان کے زیر اقتدار افغانستان جانے کا مشورہ دے دیا۔ وہ کٹنی ضلع کے بی جے پی کے صدر ہیں۔ انھوں نے مذکورہ صحافی سے کہا کہ تیل لینا ہے تو طالبان کے پا س جاو۔ افغانستان میں پچاس روپے لیٹر پیٹرول ہے۔ وہاں اسے کوئی استعمال نہیں کر رہا ہے۔ وہیں جاو اور اپنی ٹنکی فل کرا لو۔ ان سے پہلے بہار بی جے پی کے ایک لیڈر ہری بھوشن ٹھاکر نے کہا کہ جس کو ہندوستان میں ڈر لگ رہا ہو وہ افغانستان چلا جائے۔ وہاں تیل بھی سستا ہے۔ کلکتہ کے اخبار ”دی ٹیلی گراف“ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ بی جے پی کے اندرونی ذرائع کہتے ہیں کہ افغانستان سے جو تصاویر سامنے آرہی ہیں وہ بی جے پی کی داخلی سیاست کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہوں گی۔ یوگی آدتیہ ناتھ نے بھی طالبان کا ریکارڈ بجانا شروع کر دیا ہے۔ انھوں نے اسمبلی میں بولتے ہوئے کہا کہ طالبان کی جانب سے عورتوں اور بچوں پر ظلم ڈھانے کے باوجود کچھ لوگ یہاں طالبان کی حمایت کر رہے ہیں۔ ایسے تمام لوگوںکے چہرے بے نقاب کیے جانے چاہئیں۔ اخبار کا دعویٰ ہے کہ بی جے پی کے منیجروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی آمد ایسے موقع پر ہوئی ہے جب اترپردیش میں انتخابات ہونے والے ہیں اور بی جے پی اس کی تیاری کر رہی ہے۔ اس سے پولرائزیشن کرنے اور یوگی حکومت کی ناکامیوں سے عوام کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے میں مدد ملے گی۔ ان کا خیال ہے کہ یہ صورت حال عوام کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنے میں تعاون دے گی۔ اس سے قبل بی جے پی رہنما رام مادھو نے، جنھیں ایک بار پھر آر ایس ایس میں بھیج دیا گیا ہے، کیرالہ کے کوزی کوڈ میں بولتے ہوئے کہا کہ 1921 کی موپلا بغاوت ہندوستان میں طالبانی ذہنیت کا پہلا مظاہرہ تھا۔ جبکہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ اور آر ایس ایس کے نظریہ ساز راکیش سنہا کا کہنا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو بغیر کسی لاگ لپیٹ کے طالبان کی مخالفت کرنی چاہیے۔ یعنی اگر وہ مخالفت نہیں کریں گے تو انھیں طالبان حامی سمجھا جائے گا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسے ہر موقع پر مسلمانوں سے کیوں امید کی جاتی ہے کہ وہ مذمتی بیانات دیں۔ اگر وہ بیان نہیں دیں گے تو کیا وہ ملک کے وفادار نہیں سمجھے جائیں گے۔
ان حالات میں مسلمانوں کو بہت ہی محتاط رہنے کی ضرورت۔ انھیں طالبان کے بارے میں ایسا کوئی رد عمل ظاہر نہیں کرنا چاہیے جو ان کے خلاف کارروائی کا بہانہ بن سکے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو امریکہ سے نفرت ہے اور یہی وجہ ہے کہ جب افغانستان سے امریکہ کا انخلا ہوا اور طالبان نے کابل سمیت پورے ملک پر قبضہ کر لیا تو مسلمانوں کے ایک حلقے کو بڑی خوشی ہوئی۔ ہندوستان میں بھی یہ معاملہ کچھ مسلمانوں کے لیے بے انتہا مسرت کا سامان لے کر آیا۔ وہ جوش میں آکر طالبان کی حمایت کرنے لگے۔ کچھ مسلمانوں نے اسے اسلام کی فتح سے تعبیر کیا۔ کچھ نے کابل پر طالبان کے قبضے اور عام معافی کے اعلان کو فتح مکہ کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی۔ کچھ نے اسے خلافت کا احیاءسمجھا۔ خاص طور پر پاکستان کے بعض جذباتی دانشوروں ، صحافیوں اور قلمکاروں کے مضامین نے بھی یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ جیسے صحابہ کرام کا دور واپس آگیا ہے۔ اس بارے میں سوشل میڈیا پوسٹس نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ جبکہ پاکستان جیسے ملک نے بھی ابھی تک یہ اعلان نہیں کیا ہے کہ وہ طالبان کی حکومت کو تسلیم کرے گا۔ اس نے بھی یہی کہا ہے کہ اگر کوئی ایسی حکومت بنتی ہے جس میں تمام علاقوں اور قبائلی گروپوں کو نمائندگی دی جاتی ہے تو وہ اس کی حمایت کر سکتا ہے۔ روس، چین، ایران اور ترکی نے بھی اسے تسلیم کرنے کے اشارے دیے ہیں۔ لیکن امریکہ اور دوسرے ملکوں نے کہا ہے کہ وہ دیکھیں گے کہ نئی حکومت کیسی ہوتی ہے اور اس کی پالیسی کیا ہوتی ہے۔ اس کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا۔ جبکہ کناڈا نے پابندیاں لگانے کی بات کہی ہے۔ ہندوستان نے بھی ابھی تک کسی موقف کا اظہار نہیں کیا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں جہاں اب معمولی معمولی باتوں پر بھی مسلمانوں کے خلاف ایک محاذ قائم کر دیا جاتا ہے اور ان کے اقتصادی و سماجی بائیکاٹ کی دھمکیاں دی جاتی ہیں بعض نا سمجھ مسلمانوں کی جانب سے نتائج کی پروا کیے بغیر جذباتی بیان بازی کرنا کسی بھی طرح درست اور قرین عقل نہیں ہے۔ اس جذباتیت نے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ ان کی جانیں ضائع ہوئی ہیں۔ ان کی املاک تباہ و برباد ہوئی ہیں۔ ان کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا ہونا پڑا ہے۔ بالخصوص حالیہ چھ سات برسوں کے دوران ان کے خلاف ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ وہ اگر کوئی ڈھنگ کی بھی بات کریں تو اسے بھی دوسرا رنگ دے دیا جاتا ہے اور ان کی باتوں میں رنگ آمیزی کرکے اپنے مطلب کا مفہوم نکال لیا جاتا ہے۔ اور پھر اس کی آڑ میں تمام مسلمانوں کو ہدف بنایا جاتا ہے۔ لہٰذا آسام کے معاملے سے مسلمانوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ انھیں کم از کم اس وقت تک طالبان کے تعلق سے کسی بھی قسم کا رد عمل ظاہر کرنے سے بچنا چاہیے جب تک کہ ہندوستان کی حکومت اس بارے میں اپنا کوئی موقف واضح نہیں کر دیتی۔ ورنہ کوئی تعجب نہیں کہ ملک کی دیگر ریاستوں میں بھی آسام کی کارروائی دوہرائی جائے۔