عبدالسلام عاصم
”ہم دو ہمارے دو“ اور ”چھوٹا پریوار سکھی پریوار“ کے نعروں کے ساتھ خاندانی منصوبہ بندی کی راہ نسبندی کے ذریعہ تیزی سے ہموار کرنے کی جب کوشش شروع کی گئی تھی، تبھی سیاسی اور سماجی بصیرت رکھنے والوں کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ شادی اور بچوں کی پیدائش کو قدرت کا فیصلہ اور مرضی ماننے والے اس مہم کی تیز رفتار گاڑی کو ایک دم سے الٹ دیں گے۔نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
منصوبہ بنانے، اسے سمجھنے اور اس پر عمل کا جائزہ لینے والوں کے درمیاں جس تال میل کی ضرورت ہے وہ علم پورا کرتا ہے جو مقررہ رُخ پر انتہائی ہنرمندانہ پیش رفت کی راہ ہموار کرتا ہے۔خاندانی منصوبہ بندی کے پروگرام کو بھی عملاً اسی طرح مرتب کیا جانا چاہئے تھا جو بدقسمتی سے نہیں ہو سکا۔ اس منصوبے پر عمل کیلئے جو میدان ہموار کرنا چاہئے تھا اُس کے لئے چاروں طرف زمینیں ہی زمینیں تھیں۔ منصوبے کا عملی جائزہ لینے والوں نے بھی کہا تھا کہ یہ انقلاب ذہنوں میں برپا کیا جائے، جسم پر نہیں، لیکن جن اور بھوت کو ڈنڈے مار کر بھگانے والی ذہنیت نے میدان عمل میں سیدھا نس بندی کا راستہ دکھادیا۔
اس منصوبے کی ریڈیو اور اخبارات کے ذریعہ جو تشہیر کی جاتی تھی، وہ ظاہر ہے پڑھے لکھے طبقے کی تفہیم کیلئے تھی۔ اس طبقے کے لوگوں کی غالب اکثریت جہاں نسبندی کے بغیر دل سے خاندانی منصوبہ بندی کے تصور کو عمل میں لانے کی طرف راغب ہوئی، وہیں عقائد کے ساتھ جینے اور مرنے والوں نے انکار، فرار، بغاوت اور ایسی ہی دوسرے راستوں سے بھاگ اور بچ نکلنے کو ترجیح دی۔
عصری منظر نامہ یہ ہے کہ جس جہل کے پھیلاو کو اُس کی پیداوار کو بستر پر روکنے کی کوشش کی گئی وہ گاؤں اور قصبات سے گزر کر شہروں یہاں تک کہ اقتدار کی گلیاروں تک پھیل گیا۔ دوسری جانب پڑھے لکھے طبقے نے بلا قیل و قال اس پر عمل کر کے آبادی میں سروں کی گنتی کے حساب سے اپنی پہلے سے چلی آرہی کم آبادی کو اور کم کر لیا۔ آج ہر حقیقی تعلیم یافتہ کنبہ میاں،بیوی اور ایک یا دو بچوں کے ساتھ تین /چار نفوس پر مشتمل ہے۔ اس راہ میں آگے چل کر کئی فیملیاں ایسی بھی سامنے آتی گئیں جو شادی کے بعد بچے پیدا کرنے کی روایت کو آگے بڑھانے کے بجائے یتیم خانوں سے ان بچوں کو گود لے لیتی ہیں جنہیں ماں باپ کی سخت ضرورت ہے۔
اس کے برعکس ناکام نشانہ بند حلقوں میں آج بھی بدستور چار پانچ بچے تو پیدا ہو ہی رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک میں غیر مطلوب لیبر فورس کی تعدا یومیہ بنیاد پر بڑھ رہی ہے۔ ایسے بچوں کو پڑھانے لکھانے کا نظم بھی انہی حلقوں کے چالبازوں کی کمائی کا ذریعہ تو بن جاتا ہے۔ مقصد حل نہیں ہوپاتا، یعنی بیشتر بچے یا تو سرے سے اسکول نہیں جا پاتے یا ڈراپ آوٹ تعداد بڑھاتے رہتے ہیں یا پھرخواندگی کی بنیادی ضرورت پوری کر کے صرف جسمانی طور پر ہی بالغ ہوپاتے ہیں۔ اِ س کے بعد دنیا گول ہے کے مصداق وہ بچے بھی جسمانی محنت مزدوری کے قابل ہوتے ہی شادی کر کے بچے پیدا کرنے میں لگ جاتے ہیں۔
سماج کے اس انتہائی بڑے طبقے کے پاس تفریحات کی اتنی کمی ہوتی ہے کہ اُن کی خوشی اور غصے کا اظہار ایک ہی مرکز تک محدود ہو کر رہ جاتا ہے۔ نتیجے میں اکثر فیملیوں کی زندگی زچہ خانے، شفاخانے اور آخر میں مردہ خانے کے تکون کے چکر کی نذر ہو کر رہ جاتی ہے۔
اس پس منظر کو سامنے رکھ کر غور کیا جائے تو سماج میں ایک سے زیادہ ناہمواریاں، خرابیاں اور دشواریاں نشاندہی کے باوجود اس لئے دور نہیں ہو پارہی ہیں کہ بہتر سے بہتر منصوبہ بنانے، اُسے سمجھنے اور عمل میں لانے والوں کے مابین عملی تال میل نہیں۔انتہائی علاج طلب سماجی خرابیوں میں سے ایک خرابی بین فرقہ نفرت کا ہے۔اسے ختم کرنے کی بظاہرسیاسی، سماجی اور تہذیبی کوششیں اگر کارگر نہیں ہیں تو اس پر صرف تشویش اور افسوس کیا جا سکتا ہے، حیرت مطلق نہیں۔اس خرابی کو بھی دور کرنے میں ویسی ہی عجلت یا فوری انتظامی کارروائیوں کا سہارا لیا جاتا ہے جو صرف آفات سماوی یا موجودہ عالمی وبا کووڈ 19 کے خلاف کی جانی چاہئیں۔ماضی میں اگر نس بندی پر سارا زور صرف کرنے کے بجائے اسے ابتدائی اور ثانوی تعلیم کا اٹوٹ حصہ بنا دیا جاتا تو آئندہ 20 سال کے اندربالغ ہونے والی نسل کا ہر بچہ عالم فاضل بھلے نہ بن پاتا لیکن وہ اتنا ضرور سمجھ جاتا کہ نہ وہ آسمان سے اپنے آنگن میں ٹپکا تھا نہ کوئی روزی آسمان سے اترتی ہے۔لہذا کنبے کو اتنا ہی پھیلاو جتنی گنجائش ہے۔
بین فرقہ نفرت اور دوسری سماجی خرابیوں کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ہم جڑ پر وار کرنے کے بجائے ٹہنیوں اور شاخوں میں الجھ کر رہ گئے ہیں۔فرقہ وارانہ ذہنیت کی باقاعدہ پرورش کی جاتی ہے اور اس گندگی سے کم و بیش سبھی فرقے آلودہ ہیں۔ جو کم آلودہ ہیں اُن کے یہاں علم اور عقیدے کا فرق نمایاں ہونے کی وجہ سے خرابیاں بہت حد تک قابو میں رہتی ہیں اور بہت کم شاطر قسم کے لوگ اُن خرابیوں کاکاروبار کرپاتے ہیں۔اس کے برعکس ماحول میں عقائد اور علم دونوں کے غیر صحت مند اختلاط کے نتیجے میں علم نوکری کیلئے بس ڈگری حاصل کرنے کا ذریعہ بن کر رہ گیا ہے، جس کا دائرہ بدقسمتی سے اطلاعاتی تیکنالوجی کی تعلیم تک وسیع ہو گیا ہے۔
سوال ہے یہ منظرنامہ کیسے بدلا جائے! تواس کی موثر صورت یہ ہو سکتی ہے کسی بھی چیز، واقعے یا تاریخی سچ کے حوالے سے بچوں کو کتابیں رٹانے کے بجائے پڑھانا شروع کیا جائے۔ ابتدائی تعلیمی نصاب کو ہر طرح کی منفی اطلاعات سے پاک کیا جائے، خواہ وہ کتنی ہی درست کیوں نہ ہوں۔ابراہیمی خاندان میں انبیا اور خلفاء کے ساتھ زیادتیوں کی باتیں ذہنی بلوغت کا سفر طے کرنے والے طالب علموں کو پورے سیاق و سباق کے ساتھ اس طرح بتایا جائے کہ ان واقعات سے ان کے اندر بیداری پیدا ہو، کسی کے خلاف بیزاری نہیں۔
ایسی کوئی کوشش اگر کامیاب رہی تو جو بچے آج ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ بالغ عمر کے تعلیمی درجات میں پہنچتے پہنچتے صحتمند اختلاف کے ساتھ احسن طور پر جینے کے متحمل ہو جائیں گے۔ وہ یہ سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے کہ چھری یا دیاسلائی کے غلط استعمال کو روکنے کی یہ صورت مضحکہ خیز ہے کہ ان دونوں چیزوں پر پابندی لگادی جائے۔وہ موبائل، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کو اس لئے بند کر دینے کی کسی بے ہنگم تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے کہ بعض حلقوں نے اِن چیزوں کو فحش مواد انجوائے کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ وہ کوایجوکیشن میں کچھ گندے لوگوں کے آ جانے یا مدرسوں میں سدومی کے دو چار واقعات کی وجہ سے درسگاہیں بند کر نے کا کبھی مطالبہ نہیں کریں گے۔
اُن کے بالغ ذہن میں یہ سوال بھی اٹھے گا کہ کیا جنگوں کی تاریخ پڑھانے کے بجائے یکطرفہ رٹائی جائے!اور وہ از خود اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے۔وہ اپنے اپنے حلقوں میں شدت پسندوں کو قائل کر پائیں گے کہ ہمیں کسی بھی تقریر، تحریر، تصویر، تعمیرکے حوالے سے جزا اور سزا کے صرف اور صرف بے جا استعمال کے سلسلے کو روکنا ہے۔کسی بھی چیز کے بے جا استعمال روکنے کیلئے عقیدے والے جذبات کی نہیں عالمانہ ذہن کی ضرورت ہوتی ہے۔ عالم وہ نہیں جو کتابیں پڑھتا ہے۔ عالم وہ ہے جو مشاہداتی نقد و نظر سے کام لیتا ہے۔اگر ہم واقعی ایسا کرینے میں کامیاب رہے تو سماج میں آئندہ ایسے لوگ پیدا ہونے انتہائی کم ہو جائیں گے جو دوسروں کے عقائد پر حملہ کرنے اور معبدوں کو گرانے پر والہانہ یقین رکھتے ہیں۔