سپریم کورٹ میں وقف ترمیمی ایکٹ پر سماعت سے پہلے سات ریاستوں کی حکومتوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔ مہاراشٹر، آسام، راجستھان، چھتیس گڑھ، ہریانہ، مدھیہ پردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتوں نے درخواستیں داخل کی ہیں اور نئے قانون کی حمایت کی ہے۔ ان ریاستوں نے کہا ہے کہ نیا قانون شفاف، منصفانہ اور عملی ہے۔ قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی مخالفت کرتے ہوئے ان تمام ریاستوں نے عدالت سے کہا ہے کہ وہ ان کا بھی فریق سنے۔
راجستھان حکومت نے کہا ہے کہ نیا قانون بہت اچھی نیت کے ساتھ لایا گیا ہے۔ تفصیلی بحث اور پارلیمانی عمل کے بعد بنایا گیا یہ قانون قانون سازی کے تمام خدشات کو دور کرتا ہے۔ جن لوگوں نے اس قانون کے خلاف پٹیشن دائر کی ہے وہ زمینی حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ پرانے قانون کی وجہ سے ریاستوں کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ مسائل اب حل ہو چکے ہیں۔
پرانے قانون کی دفعہ 40 کا غلط استعمال تشویشناک ہے
درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ پرانے قانون کی دفعہ 40 کا غلط استعمال تشویشناک ہے۔ اس دفعہ نے وقف بورڈ کو کسی بھی جائیداد کو وقف قرار دینے اور اس پر دعویٰ کرنے کا اختیار دیا۔ اب لینڈ ریونیو ریکارڈ میں کوئی تبدیلی کرنے سے پہلے پبلک نوٹس جاری کرنے کی شرط عائد کر دی گئی ہے۔ اس سے جائیدادوں پر من مانی دعووں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔چاروں ریاستوں نے عرضی گزاروں کی اس دلیل کی مخالفت کی ہے کہ وقف ترمیمی ایکٹ آئین کے خلاف ہے۔ ریاستوں نے کہا ہے کہ یہ نظام میں اصلاحات لانے اور عمل میں وضاحت لانے کا قانون ہے۔ اس میں وقف بورڈ کے علاوہ عام لوگوں کے مفادات کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔ یہ قانون کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں کرتا