کیرانہ: (پریس ریلیز)
معروف مفکر اور دانشور مولانا سجاد نعمانی القرآن اکیڈمی،کیرانه کے طلبہ کے ساتھ سوال جواب کے ایک سیشن میں کم عمر طلبہ کی فکری بلوغت پر عش عش کر اٹھے۔یہاں منعقدہ اس ملاقات میں انہیں طلبہ کے اندر جاننے کی تڑپ نے اس قدر متاثر کیا کہ وہ دوران گفتگو مسلسل اپنی حیرت آمیز خوشی کا اظہار کرتے رہے۔ طلبہ نے مختلف موضوعات پر معتدد فکر انگیز سوالات کئے، جن کے مولانا نے نہ صرف اطمینان بخش جواب دیئے بلکہ ان کی ذہنی افزائش کو سراہا۔
12 سالہ محمد ارحم کے قرآن کو سمجھنے کے اُصول سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا نے جب اس طالب علم کو احادیث اور سیرت کی روشنی میں قرآن کے مطالعے کا مشورہ دیا تو اس بچے نے مشورے سے اتفاق کرتے ہوئے موقع پر ہی کئی آیات تلاوت کیں اور کہا کہ اِن آیات قرآنی میں بھی فہم قرآن کے اُصول بیان کئے گئے ہیں۔ مولانا گفتگو کے اس مرحلے پر عش عش کر اٹھے اور بچے کی اس ذہانت اور پختگی کی جی بھر کے داد دی۔
15سالہ سمیر نے یہ جاننا چاہا کہ ہندوستان میں رہنے والی دوسری قوموں کے ساتھ مسلمانوں کا مشترکہ کم از پروگرام قرآن کی روشنی میں کیا ہونا چاہیے ؟مولانا نے بیداری کے رخ پر اس تجسس کے جواب میں کہا کہ ہر کمزور اور طاقتور کیلئے معاشی، اقتصادی سماجی اور ہر قسم کے انصاف کی فراہمی مسلمانوں کا دوسروں کے ساتھ کم از کم مشترکہ پروگرام ہونا چاہئے یعنی ہر شخص کو ہر قسم کے انصاف کی فراہمی ایک ایسا پوائنٹ ہے جس پر مسلمانوں کو تمام فرقوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے۔
20سالہ شازیہ کا سوال تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اِنقلاب میں خواتین کا کردار کیا تھا؟ اس کے جواب میں مولانا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے اِنقلاب میں عورتوں کا ایک فعال کردار تھا۔اس اِنقلاب میں مردوں کی طرح خواتین نے بھی اپنے لئے وضع کردہ قرآنی حدود میں رہ کر سوسائٹی کی اجتماعی تعمیر میں نہایت مثبت کردار ادا کیا۔
القرآن اکیڈمی کے ایک طالب علم کا سوال تھا کہ کیا امت کی تخلیقی صلاحیتوں کو سامنے لا کر اُنھیں ڈیویلپ کرنے کے لئے نماز روزہ کی پابندی اور عقائد کی درستگی کافی ہے یا ہمیں اس کے علاوہ بھی کُچھ کرنا ہوگا ؟ اِس سوال کے جواب میں مولانا نے فرمایا کہ افکار و خیالات کی بلندی اور درستگی کے بغیر کوئی قوم تخلیقی کارنامے انجام نہیں دے سکتی۔القرآن اکیڈمی کیرانه کے طلبہ کے اِن سوالات کو سن مولانا بے حد مسرور ہی نہیں حیران بھی ہوئے اور مولانا نے اس موقع پر اِن طلبہ کے ساتھ آئندہ زیادہ وقت گزارنے کا وعدہ کیا۔
اس موقع پر اکیڈمی کی سولہ سالہ طالبہ حبیبہ شمسی نے مولانا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ سمجھتی ہے کہ مسلمانوں کے زوال کی سب سے بڑی وجہ ان کے اداروں کا زوال ہے جبکہ کسی بھی قوم کو برے وقتوں میں سنبھالا دینے کے لئے اس کے پاس طاقتور اِدارے ہونے چاہئیں۔ بصورت دیگر وہ قوم ذلت کے گڑھے میں گر کر رہتی ہے۔ ایسے میں مسلمانوں کو دوبارہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ آج اُن کے ذہین اور قابل افراد قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہر میدانِ میں طاقتور ادارے قائم کریں ۔ مولانا حبیبہ کی اس سوچ سے بے حد نتاثر ہوئے۔القرآن اکیڈمی کی جانب سے سوال جواب کے اِس سیشن میں شہر کے معتدد عمائدین نے شرکت کی۔اکیڈمی کی جانب سے مولانا کا استقبال مفتی اطہر شمسی ،واجد منصوری ،زاہد منصوری ،مولانا محمد طاہر امام جامع مسجد وغیرہ نے کیا۔اس موقع پر مولانا کی خدمت میں ایک مومینٹو بھی پیش کیا گیا۔