نئی دہلی :(آر کے بیورو) پلیسس آف ورشپ ایکٹ 1991 سے متعلق کئی عرضیوں کی آج (پیر کو) سپریم کورٹ میں سماعت ہونے والی ہے۔ اس سے پہلے چیف جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس پی وی سنجے کمار اور جسٹس منموہن کی بنچ نے آخری بار 12 دسمبر 2024 کو اس کیس کی سماعت کی تھی۔
•••مرکز چار سال میں جواب داخل نہیں کر سکا
تاہم مرکزی حکومت کو اس معاملے پر سپریم کورٹ میں جواب داخل کرنا تھا جو کہ ابھی تک داخل نہیں کیا گیا ہے۔ عدالت میں زیر التوا اس کیس کی سمت اور حالت مرکزی حکومت کے جواب پر منحصر ہے۔ اس سلسلے میں مارچ 2021 میں مرکز کو نوٹس جاری کیا گیا تھا، لیکن چار سال گزرنے کے باوجود بھی جواب داخل نہیں کیا گیا۔
حکومت نے کئی بار اس کے لیے وقت مانگا اور 20 ماہ قبل مرکز کو وقت دیتے ہوئے عدالت نے اسے کسی بھی حالت میں اپنا جواب داخل کرنے کو کہا تھا۔ تب عدالت نے 12 دسمبر تک کا وقت دیا تھا، لیکن عدالت ابھی تک مرکزی حکومت کے جواب کا انتظار کر رہی ہے۔
••مرکز کا جواب کیس میں کیوں اہم ہے
مرکزی حکومت کا ردعمل عبادت گاہوں سے متعلق اس قانون کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں اہم رول ادا کرے گا۔ یہ کیس 2020 سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ پچھلی سماعت کے دوران عدالت نے کہا تھا کہ مرکز کے جواب کے بغیر کیس کی مزید سماعت نہیں ہو سکتی۔
•••درخواست کس کس نے دائر کی؟
اس قانون کے خلاف بی جے پی رہنما اور ایڈوکیٹ اشونی اپادھیائے، مذہبی رہنما سوامی جتیندرانند سرسوتی، کتھاواچک دیوکی نندن ٹھاکر، سبرامنیم سوامی، کاشی کی شہزادی کرشنا پریا، ریٹائرڈ فوجی افسر انل کبوترا، ایڈوکیٹ چندر شیکھر، رودر وکرم سنگھ، وارانسی اور کچھ دیگر نے اس قانون کے خلاف عدالت میں درخواست دائر کی ہے۔ ان لوگوں نے عبادت گاہوں کے ایکٹ 1991 کو غیر آئینی قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جبکہ اس قانون کے حق میں جمعیۃ علماء ہند، ا مسلم پرسنل لا بورڈ، انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی، جو گیانواپی مسجد کا انتظام کرتی ہے، اسد الدین اویسی اور آر جے ڈی کے رکن پارلیمنٹ منوج جھا نے درخواستیں دائر کی ہیں۔ جمعیت کا مؤقف ہے کہ قانون کے خلاف درخواستوں پر غور کرنے سے ملک بھر میں مساجد کے خلاف مقدمات کا سیلاب آ جائے گا۔