دوٹوک:٫قاسم سید
گزشتہ دنوں سماجی و تعلیمی نوعیت کے بعض پروگراموں میں شرکت کے لیے آسام اور میگھالیہ جا نا ہوا ،قیام کے دوران ان ریاستوں کے سماجی و سیاسی مسائل اور مسلمانوں کو درپیش ہمہ جہتی چیلنجوں کی نزاکت اور پیچیدگیوں کو سمجھنے کا مختصر موقع ملاـ ان پر پھر کبھی گفتگو مگر ایک آٹو ڈرائیور سے ہندوتو کے اثرات ،اس کی گہرائی تک گرفت اور آر ایس ایس کی ان تھک گراس روٹ کی محنت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ،انہی دنوں سنگھ سر سنچالک موہن بھاگوت بھی آسام کے پانچ روزہ دورے پر تھے اور بی جے پی کے لیڈر ،’پی آئی ایل ایکسپرٹ’ اشونی اپادھیائے کسی یونیورسٹی میں لکچر دینے گوہاٹی جارہے تھے ان دونوں سے اسی پرواز میں اتفاقیہ ہائے سلیک ہوئی .
اصل بات آٹو ڈرائیور کی تھی ، ہم لوگ ایک پروگرام میں شرکت کے لیے جارہے تھے ساتھ میں معروف جرنلسٹ برادرم عبد الباری اور قمر اشرف بھی تھے ،آٹو ڈرائیور،رکشہ چلانے والے زمینی حقائق سمجھنے کا سب سے موثر ذریعہ ہوتے ہیں ، یہ تجربہ گاڑی کے آرام دہ سفر کو چھوڑ کر ضرور کرنا چاہیے ـ چنانچہ اس کی خیریت اور نام دریافت کرنے کے بعد پوچھا کہ آسام اتنا مہنگا کیوں ہے ،یہ سوال اس لیے کیا گیا کہ جو گاجر دہلی میں بیس روپے کلو ہے وہی گوہاٹی میں 80 روپے کلو مل رہی تھی یہی ریٹ کھیرے اور ٹماٹر کا تھا جبکہ وہاں کافی غربت ہے اس کا جواب تھا کہ ہم اسے خرید سکتے ہیں کیونکہ اوسط آمدنی بہتر ہے – حالانکہ وہ غلط بول رہا تھا ـ وہ چونکہ ہندو تھا اس لیے دوسرا سوال کیا کہ کونسے ہندو ہو مطلب ،بنگلہ دیشی ہو ، سناتنی ہو جینی ہو ،آریہ سماجی ہو ، کونسے ہندو ہو اورکاسٹ کیا ہے؟ کیونکہ ہندو دھرم کی بنیاد ہی کاسٹ پر ہے اور اس نظام کو دھرم کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے جبکہ مسلمانوں میں سماجی طور پر یہ سسٹم موجود تو ہے جو شادی بیاہ میں میں کام کرتا ہے لیکن اسلام نے کہیں اور کبھی بھی اس سسٹم کی حمایت نہیں کی ہے ـ بہرحال اس کا جواب بہت چونکانے اور کان کھڑے کردینے والا تھا اور اس جواب کا دور دور تک تصور نہیں کیا تھا اس نے کہا ہم پیور ( pure)ہندو ہیں یعنی خالص ہندو ہیں ـ ظاہر ہے اس عجیب و غریب جواب نے ہمارے اندر اشتیاق وجستجو کی چنگاری کو اور ہوا دے دی ـ ساتھیوں نے اسے کریدا اور معلوم کیا کہ یہ پیور ہندو کیا ہوتا ہے اس کی وضاحت کرو ،اس نے بغیر تاخیر کے جو کچھ بتایا وہ ہزاروں پڑھے لکھوں کے جواب پر بھاری تھا ،بہت ہی سادگی مگر یقیں بھرے لہجے کے ساتھ وہ بولا ، ‘جو مسلم لرکے لرکی سے سادی نہیں کرتا ، صرف ہندو سے کرتا ہے وہ پیور ہندو کہلاتا ہے’ ـ واضح رہے آسام کے بعض علاقوں میں ہندوـمسلم کے درمیان شادی کا رواج عام ہے ـ آسام میں سارا کھیل کلچر کا ہے اورکاسٹ کی جڑیں بہت کمزور ہیں ـ
زندگی میں پہلی بار ‘پیور ہندو’ کی وہ تعریف سنی جو کتابوں میں نہیں زمین پر ملے گی ،سفر کی منزل آگئی تھی ، ہماری ‘تفتیش’ اور ڈرائیور کی” تبلیغ ” پوری ہوچکی تھی ـلیکن سوچنے سمجھنے کے کئی زاویے دے گئی ،ہندوتووادی طاقتیں کس طرح زمین میں نئی فکر کی فصل بو رہی ہیں کسی فلسفہ اور اصطلاحات کی پر پیچ وادیوں سے گریز کے ساتھ معصوم ذہنوں کو تیار کررہی ہیں ،ظاہر ہے ہندو ،مسلمان سے اور مسلمان، ہندو سے کیوں شادی کریں مذہب الگ تو ازدواجی رشتے بھی الگ ـ مگر اس کی تہہ میں جو نفرتی سیال بہہ رہا ہے ،اس کی اثر پذیری کو دیکھنے کی ضرورت ہے ـ اگر سفر کی مزید طوالت اجازت دیتا تو اور بھی بیت کچھ نکل کر آتا ـ تہہ در تہہ جمی نفرت کی کائی کے اور رنگ سامنے آتے ـ مقصد ‘پیور ہندو’ کی آٹو ڈرائیور کو سمجھائی گئی تشریح کی طرف متوجہ کرنا ہے ،وہ مودی کا پکا اندھ بھکت لگ رہا تھا ـاندھ بھکتی کی گھٹی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی اور یہی نشہ ہے جو مودی کی رہنمائی میں آر ایس ایس کی ان تھک محنت کے ساتھ بی جے پی کو ہے درپے فتوحات دلا رہا ہے ـ عام شہری کو اپنے مسائل اور گھٹتے وسائل کی کوئی پرواہ نہیں وہ تو بس ‘میاں بھائی’ کی چوڑیاں کسنے اور اسے نت نئے طریقوں سے پریشان کیے جانے کی خبروں کے نشہ آور انجکشنوں میں مد مست ہے ـ یہ مٹھی بھر لوگ نہیں ہیں بلکہ زمین پر اتریں تو پتہ چلے کہ سبزی فروش سے لے کر آٹو ڈرائیور تک روزانہ کماکر کھانے والے برانڈ مودی کے اوتار کو پرنام کررہے ہیں ، وہ ہندو کے تفوق ،اس کی بالا دستی،دھارمک پروگراموں کے شاندار انتظامات،ہیلی کاپٹروں سے بھکتوں ہر پھولوں کی بارش ،اور سرکاری دیکھ ریکھ میں کیے جانے والے ہر دیوالی پر نئے گنیز بک ریکارڈ کے تماشوں سے مسحور، مخمور ہے – یہ روشنی ،ترنگ اور فخر آٹو ڈرائیور کے چہرے پر بھی پھوٹ رہا تھا ،حالانکہ اس کے چہرے کے اندرون میں فکروتشویش کی وہ لکیریں بھی صاف پڑھی جارہی تھیں جو روز مرہ کے بڑھتے مصارف کے بوجھ اور کھوکھلے پن کی تھیں ـ کیا اخباروں کی پریس ریلیزوں میں دکھائی دینے کا شوق اس آندھی کا مقابلہ کرسکتا ہے ؟شاید نہیں اور کسی کے لیے شاید ہاں ـ