نئی دہلی:(آر کے بیورو)
مسلم ہرسنل لا بورڈ کے جنتر منتر پر دھرنا و مظاہرہ اور وقف بل کے خلاف ملک گیر تحریک کے اعلان کے باوجود سرکار کے ارادوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے البتہ وہ کسی جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتی ۔ چنانچہ حکومتی ذرائع نے کہا ہے کہ اس پر عید کے بعد غور کیا جائے گا۔ اس سیشن میں بل پاس کرانے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ ٹی ڈی پی، ایل جے پی جیسی جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں، وہیں دوسری طرف اپوزیشن بھی متحد ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم تنظیموں اور اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود حکومت وقف ترمیمی بل پر پیچھے نہیں ہٹے گی۔ بل پیش کرنے سے پہلے حکومت پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں عددی طاقت بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت اپنے اہم اتحادیوں TDP اور LJP-R کو راغب کرنے میں کامیاب رہی ہے، جبکہ JDU سمیت دیگر جماعتوں کو راغب کرنے کے لیے بات چیت جاری ہے۔ حالانکہ جے ڈی یو نے کیبنٹ سے بل کی منظوری میں کوئی اختلاف نہیں کیا اور اصولی طور پر سرکار کے ساتھ ہے ،وہ یہ دکھانا چاہتی ہے کہ سرکار سے اس معاملہ پر بات کررہی ہے جبکہ ٹاپ لیڈر شپ نے گرین سگنل دے دیا ہے ـقارئین کو یاد ہوگا کہ نتیش بابو نے آج تک بورڈ کے وفد کو ملنے کا ٹائم نہیں دیا ہے ـ اس سے ان کی نیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ـ حکومت عید کے بعد بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے کے آخری ہفتے میں اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ٹی ڈی پی اور ایل جے پی آر نے بل کی دفعات کی حمایت کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ جے ڈی یو اور دیگر جماعتوں کے ساتھ بات چیت کا عمل اس ماہ کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ ذرائع نے یہ بھی کہا کہ حکومت کو اس سیشن میں ہی بل پاس کرانے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ اس بل کو کم از کم لوک سبھا میں پیش کیا جائے اور اس سیشن میں اس پر بحث کی جائے۔ اگر ممکن ہو تو اس سیشن میں بل لوک سبھا سے پاس کرایا جائے۔
•••سرکار کے پاس تین دن
اگر عید 31 مارچ کو آتی ہے تو حکومت کے پاس بجٹ اجلاس کے دوسرے مرحلے کے لیے چار دن کا وقت ہوگا جو 4 اپریل تک چلے گا۔ تاہم اگر عید یکم اپریل کو آتی ہے تو حکومت کے پاس صرف تین دن رہ جائیں گے۔ حکومت چاہتی ہے کہ بل پر تفصیلی بحث ہو، تاکہ اسے لانے کے حوالے سے حکومت کے ارادے کی وسیع پیمانے پر تشہیر ہو سکے۔ ایسے میں عین ممکن ہے کہ بل کو قانونی شکل دینے کے لیے مانسون اجلاس کا انتظار کرنا پڑے۔
•••اپوزیشن متحد، لیکن عددی طاقت حکومت کے ساتھ
اگر بی جے پی اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو اسے بل کو قانونی حیثیت دینے میں زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ بی جے پی کو اپنے اتحادیوں کی مدد سے لوک سبھا میں ضروری اکثریت حاصل ہے۔ این ڈی اے راجیہ سبھا میں اکثریت کے قریب ہے۔ اگر حکومت کو شیو سینا جیسی ہندو پارٹی کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو اسے یہاں بھی بل پاس کرانے میں کوئی بڑی مشکل نہیں ہوگی۔