کیرلا:
ایک مسلمان عورت کے پاس اپنے شوہر کو طلاق دینے کے کیا اختیارات ہیں؟ کیرالہ ہائی کورٹ نے اس سوال پر طویل بحث کے بعد اپنا فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے مانا ہے کہ مسلم خواتین کے لئے یہ مناسب ہے کہ وہ اپنے شوہروں کو اسلامی طریقے سے طلاق دیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستانی قانون کے تحت طلاق کے التزام کے علاوہ اب مسلم خواتین کے پاس بھی شرعیہ قانون کے تحت چار راستے دستیاب ہوں گےاور انہیں ’ایکسٹرا جوڈیشیل‘ نہیں مانا جائے گا۔اس فیصلے کی اہمیت ، ضرورت اور مسلم خواتین اور مردوں کی زندگیوں پر اثرات کو سمجھنے کے لئے ان چار سوالوں کے جواب جاننا ضروری ہے۔
ہندوستان میںمسلمان عورتوںکے ’ ڈیسولیشن آف مسلم میرج ایکٹ 1939‘ کے تحت نو صورتوں میں اپنے شوہر سے طلاق لینے کے لئے فیملی کورٹ جانے کا التزام ہے۔ان میں شوہر کے ساتھ ظالمانہ سلوک ، دو سال تک گزارا بھتہ نہ دینا ، تین سال تک شادی نہ نبھانا ، چار سال تک غائب رہنا ، شادی کے وقت نامردہونا وغیرہ شامل ہیں۔
کیرالا فیڈریشن آف ویمن لائرز کی سینئر ایڈوکیٹ شازنہ ایم نے بتایاکہ مسلم خواتین کے لئے عدالت کا راستہ بہت مشکل رہا ہے ، بعض اوقات مقدمات دس سال تک چلتے ہیں ، خرچہ ہوتا ہے اور وقت لگتا ہے اور شوہر کے طرز عمل کو ثابت کرنے کے لئے بہت سارے ثبوت جمع کرناپڑتا ہے۔‘ ایک اسلامی تنظیم جماعت اسلامی ہند کی قومی مشاورتی کمیٹی کی رکن شائستہ رفعت کا بھی ماننا ہے کہ مسلم خواتین کے لئے پہلی پسنداسلامی طریقہ سے طلاق لینا ہے نہ کہ قانون کے راستے سےجولمبا اور پیچیدہ ہو سکتا ہے۔
کیرل کی فیملی کورٹ میں مسلم جوڑوں کے بہت سے معاملات تھے جن میں کوئی فیصلہ نہیں ہوپارہا تھا۔ جب ان کے خلاف اپیل کیرالہ ہائی کورٹ پہنچی تو دو ججوں کی بنچ نے مل کر ان کی سماعت کرنے کا فیصلہ کیا۔سماعت کے بعد کیرالہ ہائی کورٹ نے واضح کیا کہ ہندوستانی قانون کے علاوہ مسلم خواتین بھی اپنے شوہروں کو شرعی قانون کے تحت طلاق دے سکتی ہیں۔ اس کا ایک مقصد فیملی کورٹ پر مزید مقدمات کے دباؤ کو کم کرنا ہے اور دوسرا مقصد یہ ہے کہ مسلم خواتین کے طلاق کے حق کو یقینی بناہے۔
سپریم کورٹ کے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلہ کا ذکر کرتے ہوئے عدالت نے کہا کہ تین طلاق جیسے غیر اسلامی طریقہ کو منسوخ نہ کئے جانے کیلئے تو کئی لوگ تب بولے پر ’ایکسٹرا -جوڈیشیل ‘ بتائے گئے مسلمان خواتین کے لیے طلاق کے اسلامی طریقوں کا حق واپس دینے پر کوئی عوامی مانگ نہیں کی گئی۔
کورٹ کے دو ججوں کی بنچ کے اس فیصلے نے سال 1972 کے اسی کورٹ کا وہ فیصلہ پلٹ دیا جس میں انہوں نے کہا تھاکہ مسلمان خواتین کے لئے طلاق مانگنے کے لئے صرف ہندوستانی قانون کا راستہ ہی صحیح طریقہ ہے۔ انہوں نے شرعی قانون کے راستوں کو’ایکسٹرا جوڈیشیل‘ قرار دیا تھا۔