بنگلورو:(ایجنسی)
ہندو-مسلم منافرت میں سوشل میڈیا کا کردار دن بہ دن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس کی تازہ مثال کرناٹک میں دیکھنے کو ملی جہاں باگل کوٹ پولیس نے سدھارودھا سری کانت نرالے نامی شخص کو گرفتار کیا ہے۔ سری کانت نرالے نے مسلم نام سے جعلی فیس بک پروفائل بنائی ہوئی تھی اور بی جے پی رکن اسمبلی ڈی ایس ارون کے رشتہ داروں کو دھمکی دے رہا تھا۔ 31 سالہ نرالے کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ضلع بیلگاوی میں گوکک کے نزدیک شنڈی کربیٹ گاؤں میں رہتے ہیں اور کسان ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق سدھارودھا نے سوشل میڈیا پر موجود کچھ لوگوں کی پروفائل سے تصویریں لے کر مشتاق علی کے نام سے پروفائل تیار کی۔ پھر اس نے نیوز رپورٹس اور سیاسی لیڈروں کے بیانات کو مدنظر رکھ کر فرقہ وارانہ طور پر حساس معاملوں میں لکھنا اور تبصرہ کرنا شروع کر دیا۔ بجرنگ دل کارکن ہرشا کے قتل کے بعد سری کانت نرالے نے یکے بعد دیگرے کئی پوسٹس کیے۔ اس نے سوشل میڈیا ہینڈل ’مشتاق علی‘ کا استعمال کرتے ہوئے فرقہ وارانہ طور پر حساس کچھ تبصرے بھی کیے۔ سدھارودھا نے ڈی ایس ارون کے سوشل میڈیا ہینڈل کے حوالے سے بھی ایک پوسٹ کیا۔ ایک پوسٹ میں یہ بھی لکھا گیا تھا کہ ’’آپ سوچ سکتے ہیں کہ آج ایک ہندو کارکن مرا ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں ہم تمھاری بیوی اور بچوں کو ہدف بنائیں گے۔‘‘
اس طرح کے پوسٹ کو دیکھتے ہوئے ایم ایل سی ’ڈی ایس ارون‘ نے شیوموگا واقع سائبر، اکونومکس اینڈ نارکوٹکس پولیس وِنگ میں شکایت درج کرائی۔ باگل کوٹ میں بھی پولیس نے کچھ دایاں محاذ کارکنوں کی شکایت کے بعد کیس درج کیا۔ بعد ازاں باگل کوٹ پولیس نے سدھارودھا سری کانت نرالے کو گرفتار کر لیا اور عدالت میں پیش کیے جانے کے بعد عدالتی حراست میں بھیج دیا۔
اس تعلق سے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے ایک ٹوئٹ کیا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے ’’مشتاق علی کے نام سے بنے ایک فیس بک پروفائل کے ذریعہ ہندوؤں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی تھی اور کرناٹک کے بی جے پی ایم ایل سی کو دھمکایا گیا۔ ہندوتوا گروپ نے اس کی شکایت کی اور باگل کوٹ پولیس کو پتہ چلا کہ سدھارودھا سری نے یہ جعلی اکاؤنٹ بنایا ہے۔ اسے گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلاموفوبک فیکٹری کس طرح کام کرتی ہے۔‘‘