ترکی کے وزیرِداخلہ کا کہنا ہے کہ انقرہ کے قریب کہرامانکازان میں قائم ترکش ایرو سپیس انڈسٹریز انکارپوریشن (ٹی یو ایس اے ایس) پر ہونے والے دہشت گرد حملے میں ’دو دہشت گردوں کو ہلاک‘ کر دیا گیا ہے۔ایکس پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے اس حملے میں دیگر تین افراد ہلاک اور 14 زخمی ہوئے ہیں۔ترکی کے ’گیم چینجر‘ بیراکتر آقنجی ڈرون کی خصوصیات کیا ہیں؟ترکی کے ڈرونز دنیا بھر کے فوجی تنازعات میں ’گیم چینجر‘ کیوں ثابت ہو رہے ہیں؟انھوں نے اس دہشت گرد حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم تب تک نہیں رکیں گے جب تک ہم آخری دہشت گرد کو ہلاک نہ کر لیں
ترکش ایروسپیس انڈسٹریز (ٹی اے آئی) کے ہیڈکوارٹر کے اندر کی سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک حملہ آور کو ہتھیار پکڑے دیکھا جا سکتا ہے۔فی الحال حملے کی نوعیت یا حملہ آوروں کی تعداد کے بارے میں واضح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا۔فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق، مقامی میڈیا کی طرف سے دکھائی گئی فوٹیج میں جائے وقوعہ پر بڑے پیمانے پر دھواں اور آگ لگی دیکھی جا سکتی ہے۔یہ مقام دارالحکومت انقرہ سے 40 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔مقامی میڈیا کے مطابق دھماکے کے ساتھ ساتھ گولیاں چلنے کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں۔
ترکی میں دہشت گردانہ حملے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ترکی ماضی میں ہونے والے اکثر حملوں کا الزام کرد علیحدگی پسندوں پر لگایا آیا ہے۔ترک فضائیہ شمالی شام اور خطے کے دیگر علاقوں میں ان علیحدگی پسندوں کے کیمپوں کو نشانہ بناتی آئی ہے۔تاہم نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی ترکی میں موجودگی بھی ایک اٹل حقیقت ہے۔اس کے علاوہ ٹی اے آئی کی اپنی اہمیت ہے جس کے تیار کردہ ڈرونز نے آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان جنگ کا رخ مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا ہے۔
روس کے حملے بعد یوکرین نے روسی ٹینکوں کو نشانہ بنانے کے لیے ترک ساختہ بیراکتر آقنجی ڈرونز کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔ بعد ازاں یوکرین نے مقامی طور پر بڑے پیمانے پر ڈرونز تیار کرنے شروع کر دیے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس حملے کے پیچھے کس کا ہاتھ ہو سکتا ہے اور اس سے فائدہ کون اٹھا سکتا ہے؟