تحریر: الیکسی کالمیکوف
افغانستان میں زمین کے نیچے دفن بے پناہ دولت پر ساری دنیا کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔ وہاں سونے، تانبے کے ساتھ ساتھ لیتھیم بھی موجود ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ان کی قیمت ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن اب یہ سوال ہو رہے ہیں کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد قدرتی ذخائر پر کس کا اختیار ہوگا؟
جیسے ہی امریکہ نے اپنی 20 سالہ مہم ختم کرنے کے بعد واپس ہونے کا فیصلہ کیا، طالبان نے اپنے پاؤں پھیلانا شروع کر دیے۔ برسوں تک جنگی صورت حال کا سامنا کرنے والے اس ملک میں طالبان ایک بار پھر اقتدار میں ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا طالبان یہاں موجود قدرتی دولت، انسانی وسائل اور جغرافیائی محل وقوع سے فائدہ اٹھا سکیں گے؟
سوویت اور امریکی سائنسدانوں کا دعویٰ ہے کہ افغانستان کی پہاڑیوں اور وادیوں میں تانبے، باکسائٹ، خام لوہے کے ساتھ ساتھ سونا اور سنگ مرمر جیسے بہت قیمتی معدنیات ہیں۔ اگرچہ افغانستان ابھی تک ان کی کھدائی اور انھیں فروخت کرنے کے قابل نہیں ہوا ہے، لیکن ان سے حاصل ہونے والی کمائی لوگوں کی زندگی بدل سکتی ہے۔
انڈیا، برطانیہ، کینیڈا اور چین کے سرمایہ کاروں نے وہاں کئی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں لیکن کسی نے بھی ابھی تک کان کنی شروع نہیں کی ہے۔
عالمی بینک نے تجارت کے لیے موزوں ممالک کی درجہ بندی میں افغانستان کو 190 میں سے 173 ویں نمبر پر رکھا ہے۔ جبکہ افغانستان ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی بدعنوان ممالک کی فہرست میں 180 میں سے 165 ویں نمبر پر ہے۔
نقشے ہیں، لیکن کانیں نہیں
کان کنی کے لیے بہترین مقامات کے بارے میں معلومات ایک طویل عرصے سے حاصل ہیں۔ سنہ 1960 کی دہائی میں سوویت یونین کے ماہرین ارضیات نے یہ معلومات جمع کی تھیں۔ لیکن اس کے بعد نصف صدی کے دورانی افغان کبھی سوویت یونین کی افواج کے ساتھ لڑے، کبھی خانہ جنگی کا شکار رہے، اور پھر انھیں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی مداخلت کا سامنا رہا۔
نقشے اور فائلوں پر دھول جمع ہوتی رہی۔ نہ کان کنی شروع ہو سکی اور نہ ہی کارخانے بن سکے۔ تانبے اور لوہے کو جب زمین سے نہیں نکالا جا سکا تو ان پہاڑیوں کو سرخ اور سبز رنگ میں رنگ دیا گیا ہے۔
ہاتھوں سے کان کنی کے طریقوں سے صرف لیپس لیزولی (سنگ لاجورد)، زمرد اور یاقوت کی کان کنی جاری ہے۔ یہ سب کچھ بنیادی طور پر طالبان کی جانب سے ان علاقوں میں کیا گیا جو افغان حکومت کے کنٹرول میں نہیں تھے اور پاکستان اسمگل کیے جاتے تھے۔
افیون پر مبنی معیشت
اس پورے عرصے میں افغانستان کی معیشت کی بنیاد معدنی وسائل نہیں بلکہ خام افیون تھی۔ اقوام متحدہ کا تخمینہ ہے کہ افغانستان میں تمام تر معاشی سرگرمیوں کا تقریبا دس فیصد حصہ افیون کی پیداوار، برآمد اور کھپت سے منسلک ہے۔ افیون کی برآمد افغانستان میں باقی تمام چیزں کی برآمدات سے دوگنی ہے۔
نتیجے کے طور پر قدرتی وسائل سے مالا مال ملک عالمی منڈی کو تانبے یا لیتھیم کی فراہمی میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ دنیا کی خام افیون اور ہیروئن کا 85 فیصد فراہم کرنے والا ہے۔
افغانستان میں 20 سالوں تک اپنی موجودگی کے دوران امریکیوں نے کان کنی کی صنعت کے فروغ کے لیے سازگار حالات پیدا کرنے کی کوشش کی۔ انھوں نے آرکائیوز سے سوویت نقشے نکالے اور ان پر مبنی اپنے نقشے بنانا شروع کیے۔ ایک دہائی کے دوران امریکی جیولوجیکل سروے (یو ایس جی ایس) نے 40 ٹیرا بائٹ ڈیٹا اکٹھا کیا ہے اور افغانوں کو اس کی حفاظت کے لیے تربیت دی ہے۔
افغانستان دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے جس کی تقریبا صد فیصد جانچ ہائپر سپیکٹرل امیجنگ کے ذریعے کی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں امریکیوں نے 60 انتہائی جدید نقشے جاری کیے۔ لیکن ان نقشوں سے صرف وسائل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے تجارتی پیداوار نہیں کی جا سکتی۔
ایک اندازے کے مطابق افغانستان کے پاس لیتھیم اور دیگر نایاب دھاتوں کے تین ٹریلین ڈالر کے ذخائر ہیں۔ لیکن ان کی کان کنی کے لیے پیسے، ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے، جو افغانستان کے پاس نہیں ہے۔
انڈیا اور چین نے دلچسپی ظاہر کی
امریکہ کی موجودگی کے دوران افغانستان میں پیسہ آنے لگا تھا۔ افغانستان کو کئی ممالک سے مالی مدد ملی۔ لیکن زیادہ تر رقم سڑکوں، بجلی، زراعت اور انسانی وسائل کی ترقی کے لیے دی گئی۔ عالمی بینک نے صحت، تعلیم، معاشرے میں مساوات بڑھانے کے لیے پانچ ارب ڈالر دیے تھے۔ افغان حکام نے کان کنی کے شعبے میں ترقی کے لیے بیرون ملک سے مدد مانگی تھی۔ بہت سے غیر ملکی سرمایہ کار اس کی جانب راغب بھی ہوئے۔
یہ سب طاقتور پڑوسی ممالک تھے۔ چین اور انڈیا نے معاشی سے زیادہ سیاسی وجوہات کی بنا پر دلچسپی ظاہر کی۔ انڈیا نے 11 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا۔ اس نے تین ارب ڈالر خرچ بھی کیے لیکن اب وہ واپس جا رہا ہے۔
اسٹیل اتھارٹی آف انڈیا (سیل) کی قیادت میں بہت سی ہندوستانی کمپنیاں وہاں ایک میٹلرجی (دھاتوں پر مبنی سائنس) پلانٹ بنانے والی تھیں۔ پہلے لوہے کے معیار سے متعلق مسائل سامنے آئے، پھر سیکورٹی کے مسائل۔
اب حکومت بدل گئی ہے اور طالبان کے ساتھ معاہدے کی بہت کم امید ہے۔ چین اور طالبان کے درمیان تعلقات اچھے ہیں لیکن چینی کمپنیاں خانہ جنگی کی صورت میں بڑی رقم کی سرمایہ کاری سے بھی گریز کریں گی۔
سنہ 2008 میں ایک چینی سرکاری کمپنی کو کابل کے قریب میس عینک کے علاقے میں دنیا کا سب سے بڑا تانبے کا ذخیرہ بنانے کی اجازت ملی۔
یونیسکو کے تاریخی ورثے کی فہرست میں شامل ایک بدھ یادگار کےنیچے ایک تخمینے کے مطابق 11 ٹن تانبا موجود ہے۔ لیکن 12 سال بعد بھی یادگار اپنی جگہ پر موجود ہے اور تانبا زمین کے نیچے۔
سنہ 2016 میں طالبان نے اعلان کیا تھا کہ وہ مستقبل کی کانوں کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے رہا ہے۔ کابل میں موجود امریکی حکام نے اس پر تنقید کی تھی۔ دو سال قبل طالبان نے ابتدائی طور پر تیار ہونے والی ایک کان پر حملہ کر کے آٹھ افغان مزدوروں کو ہلاک کر دیا تھا۔ یہ مزدور چین کےلیے کام کررہے تھے۔
کیا چین دوبارہ کام شروع کرے گا؟
چین کے سرکاری اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ امریکہ کے وہاں سے نکلنے کے بعد یہ اور افغانستان میں جاری دوسرے چینی منصوبے ‘سماجی عدم استحکام کی وجہ سے ابھی معطل ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق چینی تیل کمپنی سی این پی سی نے امو دریا کے بیسن کے علاقے میں تیل کی پیداوار روک دی ہے۔ یہ علاقہ کئی بار راکٹ حملوں سے محفوظ رہا ہے۔ چین کی سرکاری ملکیت والی کمپنی چائنا میٹالرجیکل گروپ، عینک کاپر ڈپازٹ ژیانسی کاپر کمپنی کے ساتھ دوبارہ کام شروع کرنے پر غور کر رہی ہے، لیکن اس کے لیے اس کی دو شرائط ہیں۔
چین کے سرکاری اخبار نے کمپنی کے ایک ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ‘ہم کام شروع کرنے پر غور کر رہے ہیں لیکن یہ تب ہی ہوگا جب وہاں حالات معمول پر ہوں گے اور چین سمیت دنیا کے دیگر ممالک طالبان کو تسلیم کریں گے۔چین نے امید کا دامن نہیں چھوڑا ہے اور انھیں کوئی جلدبازی بھی نہیں ہے۔
(بشکریہ: بی بی سی )