تحریر: ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ستیش دووا
حال ہی میں بری ، بحری اور فضائیہ کے جوانوں کی بھرتی کے لیے اگنی پتھ اسکیم شروع کی گئی ہے۔ یہ پچھلے رجحان سے بالکل مختلف، انقلابی قدم ہے۔ اس اسکیم کے تحت اگنی ویر نامی فوجیوں کو چار سال کے لیے بھرتی کیا جائے گا۔ برطرف کیے جانے کے بعد، انہیں شراکت پر مبنی سروس فنڈ پیکیج ملے گا، لیکن پنشن کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ اس کے بعد صرف 25 فیصد فوجیوں کو ان کی یونٹوں میں بحال کیا جائے گا اور وہ باقاعدہ فوجیوں کی طرح مکمل خدمات سرانجام دیں گے۔
اس پر ملک بھر میں شدید بحث چھڑ گئی ہے اور زیادہ تر سینئر لوگ چاہتے ہیں کہ اسے پوری طرح سےلاگو کرنے سے پہلے ایک پائلٹ پروجیکٹ چلایا جائے۔ چونکہ حکومت نے نئی بھرتی کی پالیسی کا اعلان کیا ہے، اس لیے ہندوستانی مسلح افواج کو نہ صرف اس سے نمٹنا چاہیے بلکہ اسے ایک منافع بخش سودا بھی بنانا چاہیے۔
اہم باتیں
• اگنی پتھ اسکیم کے فوائد، چیلنجز اور کچھ خدشات بھی ہیں۔
• تربیت کا دورانیہ کم کر دیا گیا ہے۔ اس کی بھرپائی دوسرے نئے طریقوں سے تربیت اور روزگار فراہم کر کے کی جانی چاہیے۔
•
دیہی طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان پہلے زیادہ مستقل ملازمت کے لیے درخواست دیتے ہیں جیسے کہ پولیس یا نیم فوجی دستوں میں۔ اس لیے اس نئی اسکیم کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہوگی۔
• اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ یہ نوجوان معاشرے کو فائدہ پہنچائیں، بصورت دیگر وہ فوجیوں کے طور پر بے روزگار اور تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے معاشرے کے لیے ایک ممکنہ خطرہ بھی بن سکتے ہیں۔
• فوج کی قیادت کو ہنگامی حالات میں وفاداری اور دیانت کو بڑھانے کے لیے نئے اقدامات کا استعمال کرنا ہو گا۔
ہندوستانی فوجی قیادت کو اگنی پتھ اسکیم کی طاقت کو بروئے کار لانا چاہیے
اگنی پتھ اسکیم کے کچھ فائدے، کچھ چیلنجز اور کچھ خدشات ہیں۔ ہندوستانی مسلح افواج کو اس منصوبے کی طاقت سے فائدہ اٹھانا ہوگا اور غیر متوازن ہوئے بغیر چیلنجوں اور خدشات سے نمٹنا ہوگا
۔
اگنی پتھ کے فوائد
اس سے فوجیوں کی عمر کی پروفائل کم ہو جائے گی، کیونکہ تین چوتھائی فوجی چار سال کی سروس کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے اور ان کی جگہ ہر سال دوسرے نوجوان فوجی کی جگہ لیں گے۔ ایک باقاعدہ سپاہی جو اب پینتیس یا چالیس سال کی عمر میں ریٹائر ہو رہا ہے وہ بھی جوان ہے۔ لیکن بائیس سالہ فوجی یقیناً زیادہ جوان اور بعض کاموں کے لیے موزوں ہیں۔
یہ نئی پالیسی آج کے دور کے حساب سے درست ہے ۔ نوجوان زیادہ ٹیک سیوی ہیں اور بڑی تعداد میں فوج میں بھرتی ہونے کے خواہشمند ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ اسے اپنا زندگی بھر کیرئیر نہیں بنانا چاہتے۔ افسران کے لیے شارٹ سروس کمیشن کی اسکیم ہے لیکن سپورٹ کیڈر کو بڑھانے کے لیے ایسی کوئی اور انٹری اسکیم نہیں ہے۔
یہ جونیئر سطح پر بھی بہتر قیادت کا باعث بنے گا، کیونکہ صرف 25 فیصد کو ہی چار سال بعد باقاعدہ فوجیوں کے طور پر بحال کیا جائے گا۔ تقابلی طور پر، فوجیوں کی نئی نسل ہمیشہ زیادہ ٹیک سیوی ہوگی۔ اگنی ویر کو چار سال کے دوران اپنی بہترین کارکردگی پیش کرنے کے لیے بھی حوصلہ افزائی کی جائے گی تاکہ اسے ٹاپ 25 فیصد میں شامل کیا جا سکے – جنہیں چار سال کے بعد سروس میں برقرار رکھا جائے گا۔
اس وقت دفاعی بجٹ کا 80 فیصد سے زائد فوجیوں کی تنخواہوں اور پنشن پر خرچ ہوتا ہے۔ اس سے مسلح افواج کی جدید کاری کے لیے بہت کم رقم رہ جاتی ہے۔ اس ’ٹور آف ڈیوٹی‘ سے تنخواہ اور پنشن پر ہونے والے اخراجات میں کمی آئے گی
۔
اگنی پتھ کے چیلنجز – کیا اگنی پتھ کو بہترین امیدوار ملیں گے؟
ایک رنگ روٹ، مضبوط سپاہی بنے ، اس کے لئے پہلا قدم ہوتاہے، اس کی تربیت،ترغیب اور اپنے پن کااحساس تو بعد کی بات ہے۔ پہلے رجمنٹل سینٹرس میں رنگ روٹ کو بنیادی تربیت ملتی ہے اور اس کے بعد یونٹس میں کام کے دوران ۔ اب دونوں کی مدت کم کی گئی ہے ۔ ہاں! تربیت کی مدت جو کم ہو گئی ہے اس کی بھرپائی دوسرے نئے طریقوں سے تربیت اور روزگار فراہم کر کے کی جانی چاہیے۔
دیہی طبقے کے نوجوان پہلے زیادہ مستقل ملازمت کے لیے درخواست دیتے ہیں جیسے کہ پولیس یا نیم فوجی دستوں میں۔ یعنی وہ فوج کو دوسری یا تیسری پسند کے طور پر چن سکتے ہیں۔ اس لیے اس نئی اسکیم کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہوگی۔ مثال کے طور پر، امریکہ میں قلیل مدتی ڈیوٹی کرنے والے فوجی سرکاری خرچ پر تعلیم حاصل کرتے ہیں۔
یہ نوجوان فکر مند ہو سکتے ہیں کہ چار سال کی سروس کے بعد ان کا مستقبل کتنا غیر یقینی ہو جائے گا۔ تاہم، بی ایس سی سال کے امیدوار کے لیے نوکری حاصل کرنے کا زیادہ امکان ہے جو غیر تربیت یافتہ امیدوار کے بجائے نظم و ضبط کا حامل ہو۔ لیکن پھر بھی یہ کوئی یقینی بات نہیں ہے۔ بہتر ہو گا کہ ان لوگوں کو کسی حد تک نیم فوجی یا سنٹرل آرمڈ پولیس فورس میں رکھا جائے۔ (حکومت نے کچھ نیم فوجی دستوں میں ان کے لیے 10 فیصد ریزرویشن کا اعلان کیا ہے) یہ بہت اچھا ہوگا کیونکہ ان فورسز کو جوان اور تربیت یافتہ سپاہی بھی ملیں گے۔
اگنی پتھ کے خطرات – کیا بے روزگار تربیت یافتہ فوجی معاشرے کے لیے خطرہ ہوں گے؟
حکومت کو امید ہے کہ اس کا ایک اور غیر متوقع اثر ہو سکتا ہے۔ ایسے سابق فوجی معاشرے میں پھیل سکتے ہیں جو ایک اچھا معاشرہ تشکیل دیں گے، لیکن کچھ ناخوشگوار بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اس بات کو یقینی بنانا ضروری ہے کہ ان نوجوانوں سے معاشرے کو فائدہ پہنچے، بصورت دیگر یہ بے روزگار اور بطور فوجی تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے معاشرے کے لیے ممکنہ خطرہ بن سکتے ہیں
۔
کچھ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اگنی ویر کے پاس کل وقتی سپاہیوں کی وفاداری اور حوصلہ افزائی نہیں ہوگی اور نہ ہی ان میں ایک جیسے احساسات ہوں گے۔ یہ سب کچھ فوجی کے لیے کسی بھی محاذ پر لڑنے کے لیے بہت ضروری ہے۔
ایک فوجی اپنی ’پلٹن کی عزت‘، اس کے یونٹ کے اعزاز یا ‘نام، نمک، نشان‘ کے لیے مرمٹتا ہے۔ اس کی یونٹ کا نام، اس کی رجمنٹ کا جھنڈا، اس کی رجمنٹ کا رنگ یا پنیٹ جس کے لیے وہ اپنی جان قربان کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ فوج کی قیادت غیر معمولی معیار کی ہے، اور انہیں ہنگامی حالات میں جنگیں جیتنے کے لیے ایسے اقدامات کا استعمال کرنا ہوگا۔
کیا ہندوستانی فوج کو جدید کاری کے لیے مزید رقم ملے گی؟
ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ اگر ریونیو کی مد میں تنخواہ اور پنشن کے اخراجات میں کمی کی گئی تو فوج کی جدید کاری کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔ کیونکہ فوج کی جدید کاری سرمایہ دارانہ اخراجات کے تحت آتی ہے، اور دونوں اشیاء کو مختلف طریقوں سے فنڈ کیا جاتا ہے۔
ویسے حکومت نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو درمیانی مدت میں ترمیم کی جائے گی۔ یہ ایک خوش آئند قدم ہے، کیونکہ اگنی پتھ اسکیم پہلے کے نظام سے بالکل مختلف اور انقلابی نظام ہے۔ یہ پالیسی تجربے کی بنیاد پر تبدیلی کے تابع ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلح افواج کی طاقت بری طرح متاثر نہیں ہونی چاہیے، کیونکہ ہم دونوں جوہری پڑوسیوں کے ساتھ سرحدیں بانٹتے ہیں
۔
(بشکریہ : دی کوئنٹ ہندی ، لیفٹیننٹ جنرل ستیش دووا کشمیر میں ایک سابق کور کمانڈر ہیں، جو چیف آف انٹیگریٹڈ ڈیفنس اسٹاف کے طور پر ریٹائر ہوئے ہیں۔ اظہار رائے ذاتی ہے)