امریکی محکمہ خزانہ کی ویب سائٹ نے اطلاع دی ہے کہ امریکہ نے ایران سے متعلق نئی پابندیاں جاری کردی ہیں۔ ایک شخصیت، متعدد اداروں اور بحری جہازوں کو پابندی کی زد میں لایا گیا ہے۔ ایک وہ چینی نجی شعبے کی آئل ریفائنری بھی پابندی کی زد میں آئی ہے جس پر ایرانی تیل کی خریداری اور پروسیسنگ کا شبہ ہے۔
یہ اقدام ایرانی تیل کی فروخت پر امریکی پابندیوں کے چوتھے دور کی نمائندگی کر رہا ہے جب سے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری میں تہران پر "زیادہ سے زیادہ دباؤ” کی پالیسی کو دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس پالیسی کا مقصد ایران کی خام برآمدات کو صفر تک کم کرنا ہے۔ رائٹرز کے مطابق ٹرمپ کا مقصد تہران کو جوہری ہتھیار رکھنے اور مسلح گروپوں کی مالی معاونت سے روکنا ہے۔
•••چین ایرانی تیل کا سب سے بڑا درآمد کنندہ
امریکی محکمہ خزانہ نے بتایا کہ ہدف بنائی گئی آئل ریفائنری چین میں قائم شیڈونگ شوگوانگ لووچینگ پیٹرو کیمیکل کمپنی سے تعلق رکھتی ہے۔ تہران کا کہنا ہے کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے۔ مغربی طاقتوں کا اصرار ہے کہ یورینیم کو اس سطح تک افزودہ کرنا جو ہتھیار بنانے کے لیے درکار ہیں، اس کا کوئی منطقی سویلین استعمال نہیں ہے۔
13 مارچ کو امریکی محکمہ خزانہ نے کہا تھا کہ اس نے ایرانی وزیر تیل محسن پاک نجاد اور ہانگ کانگ کا جھنڈا لہرانے والے کچھ بحری جہازوں جو ایران کو تیل کی ترسیل کو چھپانے میں مدد کرتے ہیں پر پابندی عائد کردی ہے۔ وزارت نے ایک بیان میں کہا تھا پاک نجاد دسیوں ارب ڈالر مالیت کے ایرانی تیل کی برآمد کی نگرانی کرتے ہیں۔ ایرانی مسلح افواج کو برآمد کے لیے اربوں ڈالر مالیت کے تیل کی مقدار مختص کرتے ہیں۔ امریکی محکمہ خزانہ نے مزید کہا تھا کہ اس نے ان بحری جہازوں کے مالکان یا آپریٹرز پر بھی پابندیاں عائد کی ہیں جنہوں نے ایرانی تیل چین پہنچایا یا اسے وہاں کے گوداموں سے منتقل کیا۔