مصر اور فلسطینی اتھارٹی کے علاوہ بین الاقوامی برادری نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس بیان کو مسترد کیا ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ امریکہ غزہ پر ’قبضہ‘ کر کے اس کی تعمیر نو کر سکتا ہے۔
برطانیہ سمیت متعدد ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے دو ریاستی حل کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
**برطانوی وزیرِ اعظم کیئر سٹارمر نے برطانیہ کے ایوانِ نمائندگان میں بات کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ برطانیہ دو ریاستی حل کی حمایت کرتا ہے اور انھوں نے غزہ میں موجودہ جنگ بندی کو برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ سٹارمر کا مزید کہنا ہے کہ انھیں ہزاروں فلسطینیوں کے غزہ میں ملبے کے درمیان چلتے ہوئے گھروں کو لوٹنے کی تصاویر دیکھ کر دھچکا لگا اور یہ کہ غزہ کے لوگوں کو ’گھر پہنچنے کی اجازت دینی چاہیے، انھیں تعمیرِ نو کے لیے وقت دینا چاہیے اور ان کی اس تعمیر نو کے دوران مدد کرنی چاہیے تاکہ ایک دو ریاستی حل تک پہنچا جا سکے۔‘
**فرانس میں وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں ’فلسطینی آبادی کی غزہ سے جبری نقل مکانی‘ کی تجویز کو مسترد کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پٹی کو کسی تیسری پارٹی کی جانب سے کنٹرول نہیں کیا جانا چاہیے۔‘ فرانس کا بھی یہی کہنا ہے کہ دو ریاستی حل ہی اس مسئلہ کا ’واحد دیر پا حل‘ ہے۔
**روس میں کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوو کا کہنا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں کوئی بھی حل اس وقت ممکن ہے جب دو ریاستی حل کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔
**جیسے کہ ہم پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ سعودی عرب کی جانب سے ’فلسطینیوں کو اپنی سرزمین سے جبری نقل مکانی کرنے‘ کی تجویز کو مسترد کیا گیا ہے۔
**چین اور آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم اینتھونی البینیز نے بھی دو ریاستی حل کی حمایت کی ہے۔
**ترکی کے وزیرِ خارجہ کا بھی یہی کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو کسی بھی منصوبے سے باہر رکھنا تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔