منگل کے روز، برکس ممالک کے رہنماؤں نے اسرائیل-حماس جنگ پر ایک غیر معمولی ورچوئل میٹنگ کی۔گلوبل ساؤتھ کے تقریباً تمام عالمی لیڈروں کی موجودگی کے درمیان وزیر اعظم نریندر مودی نے اس میٹنگ میں شرکت نہیں کی۔
پی ایم مودی کے اس میٹنگ میں نہ آنے کی بہت سی باتیں کہی جارہی ہیں اور کئی وجوہات بتائی جارہی ہیں۔
برکس رہنماؤں نے اسرائیل اور حماس کی جنگ میں انسانی بنیادوں پر جنگ بندی پر فوری عمل درآمد کا مطالبہ کیا۔
اس برکس کانفرنس میں روس،چین اور ساؤتھ افریقہ کے ساتھ سعودی عرب، ایران، مصر اور متحدہ عرب امارات نے بھی شرکت کی۔
سعودی شہزادہ سلمان نے تمام ممالک سے اسرائیل کو ہتھیاروں کی سپلائی بند کرنے کی اپیل بھی کی۔
ادھر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے برکس ممالک سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی حکومت اور فوجی دستوں کو ‘دہشت گرد’ قرار دیں۔
چند روز قبل چین میں عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ اب، اس کے فوراً بعد، یہ برکس کانفرنس جنوبی افریقہ کی میزبانی میں ہوئی ہے۔
حال ہی میں ریاض میں عرب اسلامی ممالک کی ایک غیر معمولی کانفرنس بھی منعقد ہوئی۔ تاہم اس کانفرنس میں بھی کچھ ٹھوس حاصل نہ ہو سکا۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل فلسطین تنازع کے حوالے سے عرب ممالک میں بے چینی اور بے بسی پائی جاتی ہے۔
دی ہندو کے بین الاقوامی امور کے ایڈیٹر اسٹینلے جانی نے ایکس پر لکھا ہے کہ ‘عرب ممالک کے وزرائے خارجہ بیجنگ کیوں گئے؟ عرب شدید دباؤ میں ہیں۔ اگر وہ جنگ کو روکنے کے لیے کچھ نہ کر سکے تب بھی اسے کچھ کرتے ہوئے دیکھا جانا چاہیے۔
چین پہلے ہی مشرق وسطیٰ میں امن کے ثالث کے طور پر آیا ہے۔ چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ کیا ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ عرب رہنما بائیڈن کی اسرائیل کی غیر مشروط حمایت سے سخت ناراض ہیں۔ وہ چین کو زیادہ غیر جانبدار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ وہ امریکہ کو بھی واضح پیغام دے رہے ہیںکہ وہ اب چین کو مغربی ایشیا میں ایک اور قطب کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ یہ ایک بڑی پیش رفت ہےاور امریکہ و اس کی حلیف ممالک کے لئے طاقتور وارننگ بھی کہ آنے والے دنوں میں بہت کچھ بدلنے جارہا ہے