تجزیہ:عدیل اختر
یہ غالباً دو یا تین سال پہلے کی بات ہے ، سپریم کورٹ کے ہی کسی جج نے کہا تھا کہ جب تک موجودہ سنودھان ہے ہم اسی سنودھان کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے پابند ہیں، لوگوں کو ان کے سنویدھانک ادھیکاروں سے ونچت نہیں کیا جاسکتا ۔ سپریم کورٹ کے جج کا یہ ریمارک عدالتوں کی اس دقت کا اظہار ہے کہ ایک طرف ججوں کی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں اور دستوری تقاضے ہیں، دوسری طرف "قوم کا اجتماعی ضمیر” ہے تو وہ کیا کریں! "قوم کے اجتماعی ضمیر” کی یہ اصطلاح خود سپریم کورٹ کے ججوں کی ہی وضع کردہ ہے۔ ایک موقع پر ایک ملزم کو مجرم ٹہرانے کے بعد پھانسی کی سزا سناتے وقت عدالت عالیہ کے معزز جج صاحب (یا صاحبان) نے کہا تھا کہ "قوم کا اجتماعی ضمیر” اس کا تقاضا کرتا ہے کہ اس قصوروار کو پھانسی دی جائے ۔
قوم کا یہ اجتماعی ضمیر اصل میں اکثریتی فرقے کا اجتماعی ضمیر ہے ۔ اور اکثریتی فرقہ کا مطلب ہے ہندو قیادت، جس میں مذہبی و سماجی دونوں طرح کی، اور گاؤں سے لیکر ملک گیر سطح تک کی قیادیں، نیز جاتی سے لے کر پورے سمپردائے کی بنیاد پر بنی انجمنیں سب شامل ہیں ۔ یہ ہندو قیادت ہندو ضمیر کی ترجمانی کرتی ہے اور اس ہندو ضمیر کو ہر ہندو سنتا، سمجھتا اور پڑھتا ہے لیکن سیاست کی زبان میں اسے قوم کا اجتماعی ضمیر کہا جاتا ہے ۔ جس طرح اٹل بہاری واجپائی نے کہا تھا کہ رام مندر کا نرمان راشٹر کی بھاؤنا کا پرکٹی کرن ہے ۔
اعلیٰ عدالتوں، خاص طور سے سپریم کورٹ، کے غیر جانب دار یا انصاف پسند جج صاحبان اس ” اجتماعی قومی ضمیر” اور عدالت کی دستوری روح کے درمیان ایک کشمکش میں ڈانواڈول نظر آتے ہیں ۔مسلمان بنام ہندو یا مسلمان بنام حکومت معاملوں میں یہ مبینہ اجتماعی قومی ضمیر اکثر و پیشتر انصاف کے تقاضوں پر غالب آتا ہے ۔ شاید ایسے کسی بھی قضئے میں مسلمانوں کی کبھی کوئی جیت نہیں ہوئی ہے ۔ بابری مسجد کا تو ہر مقدمہ انصاف کے بجائے ہندوؤں کے اجتماعی ضمیر کی بنیاد پر ہی فیصل ہوا ہے ۔ چنانچہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے مقدمے کے سپریم فیصلے میں بھی دستور کی روح اور قوم کے اجتماعی ضمیر کی کشمکش دیکھی جاسکتی ہے ۔ دستور و قانون کا غیر جذباتی فیصلہ تو یہ ہے کہ اقلیت کو اپنے نجی تعلیمی ادارے قائم کرنے اور خود انہیں چلانے کا حق ہے، اور مسلم یونیورسٹی کی تاسیسی بنیادیں یہ ناقابل تردید ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ اسے مسلمانوں نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے از خود قائم کیا تھا اور 1920 میں ان کے ہی مطالبے پر، ان کے جمع کردہ فنڈ کی بدولت حکومت وقت نے اسے آئینی طور سے یونیورسٹی کا درجہ دیا تھا ۔ لیکن اکثریتی فرقہ کا اجتماعی ضمیر اسے آزادی کے بعد سے ہی حکومت کے ہاتھوں میں لینے کا تقاضا رکھتا ہے ۔ چنانچہ جیوری نے دستور و آئین کی اور ثبوتوں کی بنیاد پر تو یہی فیصلہ دیا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایک اقلیتی ادارہ تھا اور اس کا کردار ختم نہیں ہوا ہے ، عدالت عالیہ کےجس فیصلے کی رو سے اس کو اقلیتی ادارہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا وہ کالعدم قرار دیا جاتا ہے ۔
لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ حکم بھی لگادیا ہے کہ یونیورسٹی کا اقلیتی کردار آئندہ بھی بنے رہنا چاہیۓ یا نہیں اس کا فیصلہ عدالت کرے گی اور اس کے لئے ایک سہ رکنی بینچ قائم کی جائے گی ۔ یہ بات بادی النظر میں ٹھیک ایسی ہی معلوم ہوتی ہے جیسے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے لئے دیتے وقت عدالت نے کہی تھی۔ یہ کہ بابری مسجد ایک مسجد ہی تھی، مندر توڑ کر نہیں بنائی گئی تھی ، اس کا ڈھایا جانا ایک غیر قانونی مجرمانہ عمل تھا ۔ لیکن اس جگہ سے چوں کہ ہندوؤں کی عقیدت وابستہ ہے اور رام ہندوؤں کے دیوتا ہیں اس لئے یہ جگہ رام للا کی ملکیت قرار دی جاتی ہے ۔ یہ انصاف کی پکار پر ہندو ضمیر کی فتح تھی۔ لہذا اب یہ دیکھنا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے معاملے میں انصاف ، دستور اور حق کو اوپر رکھا جائے گا یا ہندؤوں کے اجتماعی ضمیر کی آواز پر فیصلہ ہوگا ۔
(نوٹ:یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں )