تحریر:افتخار گیلانی
9اگست، 2016۔افغانستان کے دارالحکومت کابل کی امریکی یونیورسٹی میں آسٹریلیا کے پروفیسر ٹموتھی ویکس رات آٹھ بجے تک افغان پولیس افسران کو انگریزی سکھا رہے تھے۔ اس دن کلاس کچھ زیادہ ہی دیر تک چلی تھی اور اب و ہ کسی طرح جلدی اپنی رہائش گاہ تک پہنچنا چاہ رہے تھے۔ شہر میں حالات بھی خاصے مخدوش تھے۔ کتابیں اور دیگر چیزیں ہاتھ میں لیکر وہ عجلت میںو ین میںسوار ہوئے ۔ پچھلی سیٹ پر ان کے ساتھی امریکی پروفیسر کیون کنگ بھی اپنے فربہ جسم کے ساتھ بیٹھ چکے تھے۔گاڑی یونیورسٹی سے چند ہی گز دور پہنچی تھی اور ٹموتھی سیٹ پر ابھی بھی بیگ میں سامان سیٹ کر رہے تھے، کہ یکایک ڈرائیور نے بریک لگائی، جس کی وجہ سے ان کا سر سامنے والی سیٹ کے ڈنڈے سے ٹکرایا اور چند لمحوں کیلئے وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہوگئے۔ جب وہ واپس ہوش میں آئے اور ڈرائیور سے گاڑی کے روکنے کی وجہ دریافت کرنی چاہی تو ماحول میں خاموشی اور تناوٗ صاف محسوس ہورہا تھا۔ کنگ کی طرف سر گھما کر معلوم ہوا کہ وہ بالکل گنگ ہو چکا ہے اور اسکی پتلون گیلی تھی۔ اندھیرے میں ہی کھڑکی کے باہر مسلح ہیولے دکھائی دے رہے رہے تھے۔جلد ہی ٹموتھی اور ان کے ساتھی کو باہر لیجا کر دوسری گاڑی میں سوار کرکے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھی گئی۔پروفیسر ٹموتھی اور اسکے ساتھی کی طویل ترین آزمائش کا دور شروع ہو چکا تھا۔
اگلے 1,192دن یعنی تین سال سے زائد عرصہ وہ طالبان کی قید میں رہے۔ مگر شاید اسوقت ان کے وہم و گمان میں بھی نہ رہا ہوگا کہ یہ شام ایک طویل ترین آزمائش کے بعد ان کی زندگی میں ایک نئی صبح لیکر آئیگی۔
ترکی کے دارالحکومت انقرہ کی ایک یخ بستہ شام کو جب میرے کولیگ شفیق احمد نے اپنی رہائش گاہ پر افغانی ٹوپی پہنے دراز قد گورے آسٹریلین سے متعار ف کرایا، تو میں نے چھوٹتے ہی پوچھا ، پروفیسر ٹموتھی، آخر طالبان کی قید میں اذیتیں سہنے کے باوجود آپ ان کے حمایتی کیوں ہیں؟ تو لاغر جسم والے پروفیسر نے تیز نظروں سے دیکھتے ہوئے تنبیہ کی کہ وہ ٹموتھی نہیں بلکہ جبریل عمر سراقہ خالد ہیں۔ ٹموتھی کو انہوں نے افغانستان کے پہاڑوں اور طالبان کے ٹھکانوں کی اندھیری کوٹھڑیوں میں دفنا دیا ہے۔ اپنا پاسپورٹ دکھاتے ہوئے ، انہوں نے کہا انہوں نے اپنا نام سرکاری طور پر بھی تبدیل کر دیاہے۔ ان تین سالوں کی قید نے ا ن کے جسم پر کئی نشان چھوڑے ہیں۔ پیر کے زخم، جلد کے امراض کے علاوہ پروسٹیٹ کینسر کی وجہ سے دس ماہ میں ان کی سات بار سرجری ہوئی ہے، مگر اس کے باوجود اذیت دینے اور قید کرنے والوں کے خلاف ان کے دل و دماغ میں غصہ کا شائبہ تک نظر نہیں آتا ہے۔ وہ سجدہ شکر بجا لا تے ہیں کہ اس قید میں ان کو دین اسلام کی روح کو پہچاننے اور اسکا مطالعہ کرنے کا موقع ملا ،ورنہ وہ شاید اسکے بغیر ہی دنیا سے رخصت ہوجاتے۔
ـ’’نام لمبا ہے، مگر آپ مجھے جبریل کہہ کر بلا سکتے ہیں۔ بار میری والدہ کا نام ہے، جو میری اسیری کے دوران انتقال کر گئی تھیں۔ حضرت عمر کے ساتھ والہانہ عقیدت کی وجہ سے میں نے یہ نام اختیار کیا ہے، سراقہ بن نوفل، جس نے انعام کے لالچ میں پیغمبر حضرت محمد ﷺ کو مدینہ ہجرت کرنے سے روکنے کی کوشش کی، مگر اسکی کوشش بے سود رہی اور پیشن گوئی کی گئی تھی، کہ اسلام قبول کرنے کے بعد اسکو ایران کے شہنشاہ کسریٰ کے کنگن ملیں گے۔ اور فلسطین میں رہتے ہوئے میں نے خالد بن ولید کے بارے میں معلومات حاصل کی تھیں۔ اسلئے خالد بھی نام کا حصہ ہے،‘‘ ٹموتھی گویا اپنا نام بتاتے ہوئے ، پوری اسلامی تاریخ کے صفحات پلٹ رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمانوں کے ساتھ ان کے روابط افغانستان آمد سے قبل فلسطین، سعودی عرب، متحدہ امارات اور دیگر ممالک میں ہوچکے تھے اور عربی کے ساتھ بھی کچھ شد بد تھی، مگر اسلام کے ساتھ رابطہ طالبان کی قید میں ہی ہوا۔’’ خاصی اذیتیں سہنے اور موت کو قریب سے دیکھنے کے بعد اپنی قید کے دوسر ے سال میں اپنے آپ سے سوال کررہا تھا کہ آخر میں زندہ کیوںہوں؟۔ اسی دوران عمر نام کا ایک نیا گارڈ بھی متعین ہوا تھا، جو اپنے دیگر ساتھیوں کے مقابلے رحم دل تھا۔ ہاں یاد آگیا، میرے نام میں عمر اس کی وجہ سے بھی ہے۔ میں نے وقت کاٹنے کیلئے کتابوں کا کئی بار مطالبہ کیا تھا۔اس دوران اب مجھے انگریزی میں کراچی کے اردو بازار میں شائع شدہ اسلام سے متعلق کتابیں ملنی شروع ہوگئیں۔ تو ایک دنیا کھلتی گئی ۔ پھر میں نے قرآن کا براہ راست مطالعہ کرنا شروع کیا ۔ کچھ عربی آتی تھی، اور کچھ انگریزی کے ترجمہ سے سمجھنے کی کوشش کی۔‘‘ ٹموتھی یا جبرئیل کا کہنا ہے کہ کئی بار ان کو محسوس ہوتا تھا کہ رات کو اندھیری کوٹھڑی میں ان کے اردگرد نور کا ایک ہالہ سا موجود رہتا تھا ، جو فجر کے وقت غائب ہو جاتا تھا۔ ایک پرچھائی سی قریب محسوس ہوتی تھی ۔’’جس سے میں اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتا تھا۔ لگتا تھا کہ کوئی فرشتہ میری حفاظت پر مامورہے۔ جس کی وجہ سے میں نے اپنے نام کے ساتھ جبریل رکھا۔ایک ایونجیلیکل مسیحی ہونے کے ناطے جبریل کے بارے میں بچپن سے ہی معلومات تھیں۔
’’ 2019میں انس حقانی سمیت تین طالبان کمانڈروں کے عوض رہائی کے بعد ، جب آسٹریلیا میں ان کی فیملی اور دوستوں کو معلوم ہوا کہ انہوں نے اسلام قبول کرلیا ہے وہ شاک کی کیفیت میں چلے گئے۔ اکتوبر 2021کو جب قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کی مذاکرتی ٹیم کابل پر قبضہ کے بعد پہلی بار امریکی وفد سے روبرو تھی، تو ٹموتھی کو بھی دوحہ آنے کی دعوت دی گئی، جہاں انس حقانی نے ائیر پورٹ آکر ان کا استقبال کیا۔ ان کی کہنا ہے کہ طالبان بتدریج inclusivity (تکثیریت) کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ طالبان کے خوف سے سکھ اقلیتی فرقہ کے جو افراد بیرون ملک منتقل ہو گئے تھے، وہ اب واپس آنے کیلئے کوشاں ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی کوششوں سے سابق سکھ ممبر پارلیمنٹ نریندر سنگھ خالصہ نے حال ہی میں کابل میں وزیر داخلہ سراج الدین حقانی سے ملاقات کی۔
ــ’’میں دنیا کو بتانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ طالبان اور افغانستان کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ میں نے انڈونیشیا کے قریب مشرقی تیمور میں بھی کام کیا ہے۔ اس علاقہ کے آزاد ہونے کے بعد دہائیوں سے انڈونیشیا کے ساتھ بر سر پیکار عیسائی گوریلا گروپوں کو جب اقتدار ملا، تو وہ بھی اسی طرح کے مسائل کے شکار تھے، جو طالبان کو درپیش ہیں۔‘‘ جس طرح دنیا نے مشرقی تیمور کے گوریلا گروپوں کو وقت دیا، تاآنکہ وہ حکومت کرنے کے قابل اور اہل ہوگئے، اسی طرح طالبا ن کو بھی وقت دینے کی ضرورت ہے۔‘‘ ابھی ان سے غیر ضروری توقعات رکھ کر جانچنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔ ٹموتھی کا کہنا ہے کہ قید کے دوران ایک بار کسی علاقہ میں انہوں نے روشندان سے بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھا، تو ان کے اندر کا استاد جاگ اٹھا۔
ٹموتھی سوچنے لگے کہ 12یا 13سال کی عمر میں یہ بچے بندوق اٹھائیں گے اور اگر زندہ رہے تو 19یا 20سال کی عمر میں انکی شادی ہوجائیگی اور پھر کسی دن ہلاک ہو کر یتیموں اور بیوائوں کی آبادی میں اضافہ کریں گے۔ افغانستان کے وسیع تر علاقہ کی یہی کہانی ہے۔ ’’یہ ایک ایسا موڑ تھاجب میں نے سوچا کہ مجھے ان بچوں اور افغانستان کیلئے کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ افغان بچے بھی بہتر تعلیم و تربیت اور زندگی کے مستحق ہیں۔‘‘ ایام اسیری کے بارے میں جب ان سے سوال کیاتو معلوم ہوا کہ ان کے جسم اور پیروں پر تشدد کے کئی نشانات ہیں۔ ان کے ساتھی امریکی پروفیسر کنگ چونکہ عمر رسیدہ اور معذور تھے، تو ان کے حصے کی مار بھی ان کو ہی پڑتی تھی۔ تین برسوںمیں ان کو 33بار منتقل کیا گیا۔ چونکہ یہ منتقلی اچانک ہوتی تھی، اسلئے ان کو تیاری کیلئے بس چند سیکنڈ ہی ملتے تھے۔ اس سے زیادہ وقت لینے پر پٹائی ہوتی تھی۔ کسی وقت امریکی پروفیسر اپنا پاجامہ بند کر نا بھول جاتے تھے تو طالبان ان کے بدلے ٹموتھی کو ہی پیٹتے تھے کہ وہ ان کا خیال کیوں نہیں رکھتے ۔ ایک بار ان کے جسم پر خارش نکل آئی، وہ اپنی قمیض اتار کر رکھتے ، اس پر طالبان گارڈ خاصے ناراض ہوتے اور بھر پور پٹائی کرتے ۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ امریکی جیلوں میں موجود طالبان کے قیدیوں نے بھی اسی طرح کے تشدد کا سامنا کیا ہے۔
نہایت سست رفتاری کے ساتھ پلیٹ سے جب وہ چاول اور چکن کھارہے تھے تو میں نے ٹموتھی سے پوچھا کہ ایام اسیری میں کھانے کا کیا انتظام تھا۔ان کا کہنا تھاکہ کئی کئی ماہ بس ایک ہی طرح کا سالن ملتا تھا۔ جب ایک بار دو ماہ تک لگاتار بینگن ہی کھانے میں ملتے رہے تو ایک دن تنگ آکر امریکی پروفیسر نے سبزی لیٹرین میں رکھ دی جس کی وجہ سے گارڈ ناراض ہوگئے، بس انہوں نے پھر مجھے ہی پیٹ ڈالا۔ جب کھانے کی شکایت کرتے تو وہ کہتے تھے کہ وہ خود ایسا ہی کھانا کھاتے ہیں۔ اپنی اسیری کے دوسرے سال کے آخر میں جب ٹموتھی نے اسلام قبول کرکے نما ز وغیرہ ادا کرنا شروع کی تو طالبان گارڈ پھر بھی ان کو تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ ان کو شاید یقین نہیں آ رہاتھاکہ وہ مسلمان ہو گئے ہیں۔
اپنی قید کے دوران خوفناک ترین واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2018میں امریکی افواج نے ان کا پتہ لگا کر طالبان کے ٹھکانہ پر دھاوا بول دیا۔ یہ شدید سرد رات تھی اور وہ کمبل میں لیٹے تھے کہ طالبان گارڈ نے ان کو اٹھایا اور ٹائلٹ کا کموڈ اٹھا کر ان کو اندر جانے کا حکم دیا۔ وہ ابھی پس و پیش میں ہی تھے کہ مشین گن کے ایک برسٹ نے دیوار کو چھلنی کردیا۔ طالبان گارڈ نے ان کو دھکا دیکر نیچے خلا میں پھینک دیا ۔ وہ قلابازیاں کھاتے ہوئے تقریباً 40فٹ نیچے گر گئے اور ان کا ٹخنہ تقریباً پیر سے الگ ہو گیا تھا۔ نیچے معلوم ہوا کہ سرنگوں کا ایک وسیع نیٹ ورک ہے۔ پیٹ کے بل کئی میل تک ٹنل میں رینگنا پڑا، اوپر شدید بمباری ہو رہی تھی۔ ٹنل کے در و دیوار ہل رہے تھے۔ لگ رہا تھا کہ زمیں بس ابھی نیچے آکر ہمیں زندہ درگور کر دے گی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ امریکی فوج بس ہم سے 30سیکنڈ کی دوری پر تھی جب ہمیں ٹنل میں پھینکا گیا۔ ٹموتھی کا کہنا ہے کہ طالبان عسکریوں کی ایک خصوصیت تھی کہ وہ رات کو بغیر کسی ٹارچ وغیر ہ کے بلی یا چیتے کی طرح بغیر کوئی آواز کئے نقل و حرکت کرتے تھے۔ محض دو فٹ کی دوری سے بھی اس نقل و حرکت کو محسوس کرنا مشکل ہوتا تھا۔ چونکہ امریکی یا افغان فوج کی کارروائیاں بھی رات کو ہی ہوتی تھیں، اسلئے رات بھر سونا ناممکن ہوتا تھا۔ ان ٹھکانوں پر صبح فجر کی اذان کے بعد ایک سکوت سا چھا جاتا تھا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی جس پر میں صبح کی اذان کا انتظار کرتارہتا تھا۔ ‘‘
سب سے اچھا دن 19نومبر 2019کا تھا۔ جب فجرکی نماز کے بعد ان کو پانی کی ایک بالٹی دیکر بتایا گیا کہ وہ نہا دھو کر تیار رہیںکیونکہ ان کو رہائی ملنے والی ہے۔ انکو یقین نہیں آرہا تھا۔ اس طرح کے وعدے کئی بار کئے گئے تھے ۔ خیر اس بار انکے جسم کی اچھی طرح دیکھ بھال کرنے کے بعد ان کو گاڑی میں سوار کیا گیا اور آنکھوں سے جب پٹی اتاری گئی تو معلوم ہوا کہ پہاڑوں کے درمیان ایک وسیع میدا ن ہے۔ یہ زابل کا علاقہ تھا۔ گارڈپاس کے پہاڑوں پر براجمان تھے، ان میں سے کئی عسکریوں کے پاس کیمرہ تھے ، جو اس پورے واقعہ کی فلم بنا رہے تھے۔ چند ساعتوں کے بعد فضا میں گڑگڑاہٹ ہوئی۔’’ دو بلیک ہاک امریکی ہیلی کاپٹر ہمارے سروں کے اوپر پرواز کرکے لینڈنگ کیلئے گرائونڈ دیکھ رہے تھے۔ گر د وغبار کا ایک طوفان سا آگیا، جس میں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ چند لمحوں کے بعد جب گرد و غبار چھٹ گیا تو دیکھا کہ دونوں ہیلی کاپٹر چند سو گز کی دوری پر کھڑے ہیں۔ اس میں سے امریکی اسپیشل فورس کا ایک اہلکار نمودار ہوا ، طالبان گارڈ نے مجھے اس کی طرف جانے کا اشارہ کیا۔ وہ مجھے گلے لگاکر تکالیف اٹھانے پر معافیاں مانگ رہے تھے اور بتا رہے تھے کہ ان سے رابطہ رکھوں۔ یہ وعدہ میں اب بخوبی نبھا رہا ہوں۔ امریکی اہلکار نے بھی مجھے گلے لگا کر کہا وہ مجھے گھر لیجانے کیلئے آئے ہیں۔ میرا وزن 30پونڈ کم ہوچکا تھا۔ مجھے زابل سے قندھار اور پھر بگرام لے جایاگیا، جہاں سے ایک دیو ہیکل طیارہ سے جرمنی میں امریکی فوجی مستقر پہنچایا گیا۔ ‘‘
ٹموتھی کا کہنا ہے کہ ان کا اصل امتحان اب آسٹریلیا میں ہونا تھا۔ معلوم ہوا کہ والدہ کا اس دوران انتقال ہو چکا تھا۔’’ میرے خاندان والے Hillsong Evangelistic Churchسے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ میر ے قبول اسلام سے سخت ناراض تھے اور نتیجہ اخذ کررہے تھے کہ میں اذیت رسانی کی وجہ سے پاگل ہوچکا ہوں۔ دوستوں نے والد کو بتایا کہ ان کا فرزند اسٹاک ہوم سنڈروم کا شکار ہو گیا ہے ، جس میں مغوی کی اغوا کار کے ساتھ ہمدردی ہوجاتی ہے۔ مجھے نفسیاتی ماہرین کے پاس لے جایا گیا ۔ جانچ کے بعد انہوں نے اسکی نفی کردی۔ ــ‘‘ یہ داستان سننے کے بعد میں نے ان سے پوچھا جب آپ نے اتنی اذیتیں سہیں اور پوری دنیا اسوقت اسلامو فوبیا کے گرداب میں ہے تو انہوں نے اسلام کو کیوں چنا، انکا کہنا تھا کہ دنیا کو اسلام کی غلط تصویر دکھا ئی جا رہی ہے۔ ‘‘میرے ملک آسٹریلیا میں مسلمانوں کو خودکش بمبار یا خواتین کا استحصال کرنے یا انکو اذیتیں دینے اور چار شادیاں کرنے کیلئے جانا جاتا ہے۔جو ایک غلط تاویل ہے۔‘‘ آسٹریلین پروفیسر اس وقت ایک معروف بین الاقوامی اشاعتی ادارہ کیلئے ایک کتاب لکھ رہے ہیں، جس کے مکمل ہونے کے بعد وہ افغانستان منتقل ہوکر وہاں تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ملاقات کے دوران وہ بار بار بتا رہے تھے کہ وہ روحانی طور پر آسٹریلین کے بجائے اپنے آپ کو پشتو افغان مسلمان سمجھتے ہیں۔ قید کے دوران انہوں نے کئی نظمیں بھی لکھی ہیں جو شاید وہ اپنی کتاب میں درج کریں گے۔
پروفیسر ٹموتھی یا جبرئیل عمر کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مجھے یاد آرہا تھا کہ چند سال قبل دہلی میں ایک جید ہندو سکالر سے ملاقات ہوئی تھی، جنہوں نے اسلا م اور دہشت گردی کے موضوع پر ہندی میں ایک کتابچہ لکھا تھا، مگر بعد میں اسلام کے مداح بن گئے ۔ ان سے وجہ جاننی چاہی تو ان کا کہنا تھا کہ بھارتی نژاد ہندوؤں کی ایک امریکی تنظیم نے ان کی کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بعد ان کو آفر دی کہ وہ اس موضوع کو مزید پھیلا کر 200یا 300صفحات کی ایک کتاب لکھیں اور اسکے لئے پیشگی کئی لاکھ روپے ان کو دیے گئے۔ چونکہ ایک ضخیم کتاب لکھنے کےلئے مزید تحقیق کی ضرورت تھی، انہوں نے براہ راست قر آن کا مطالعہ کرنا شروع کردیا۔ تو معلوم ہو اکہ جب آیات وغیر ہ کا حوالہ دیکر انہوں کے کتابچہ تحریر کیا تھا، ان کے معنی اور مطالب تو کچھ اور ہی ہیں۔ وہ تو بجائے دہشت گردی کے امن و آشتی کا پیغام دیتے ہیں۔ ان کا شکوہ تھا کہ اس کے ذمہ دار مسلمان خود ہیں، جو خود قرآن پڑھتے اور سمجھتے ہیںنہ کسی اور کو پڑھنے دیتے ہیں۔ ایک جید دلت سکالر پروفیسر کانچی نے بھی ایک بار مجھے بتایا کہ مسلمان قرآن پاک کو ایک پیغام یا کتاب کے بجائے مقدس تعویذ کے بطور طاقوں یا جز دانوں میں سجاتے ہیں اور اسکے معانی سمجھنے کا کام نہیں کرتے ہیں۔ اگر یہ کسی غیر مسلم کے ہاتھ میں لگ جائے تو جز بز ہو جاتے ہیں کہ کہیں اسکی بے حرمتی نہ ہوجائے۔ مجھے یاد ہے کہ ممبئی کے معروف ٹاٹا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز کے کیمپس میں میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جید سکالر نے کہا کہ افتخار بھائی اسلام اور مسلمان دو الگ الگ چیزیں ہیں، کاش یہ دونوں اکھٹی ہوجاتیں۔
خیر جبرئیل عمر بتا رہے تھے کہ’اب جب میں آزاد ہو گیا ہوں تو میرا ارادہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ مل کر ان بچوں خصوصاً لڑکیوں اور عورتوں کی تعلیم کے لیے کام کروں۔ میں نے اپنے آپ کو لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے لیے وقف کر چکا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میں ایک فلاحی ادارے کے قیام کے ذریعے افغانستان میں اس مقصد کے لیے بہت زیادہ کام کر سکتا ہوں۔طالبان نے ان مغربی پروفیسروں کی دو مرتبہ ویڈیوز بھی ریلیز کی تھیں۔ ایک ویڈیو اغواء کے ایک برس بعد ہی جاری کی گئی تھی۔ زرد رنگت اور علیل دکھائی دینے والے دونوں پروفیسروں نے اپنی اپنی حکومتوں سے اپنی اپنی رہائی کی بات چیت شروع کرنے کی اپیل کی تھی۔ ان کی رہائی کا ایک ریسکیو آپریشن بھی امریکی فوج نے کیا تھا لیکن کارروائی کے وقت اس مقام پر دونوں پروفیسر موجود نہیں ہوئے تھے۔
ان کا کہنا تھا ’میری خوش قسمتی ہے کہ اغوا کی اس برائی میں مجھے اچھائی کی ایک کرن نظر آئی ہے، اب میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کیونکہ میں سو فیصد پرعزم ہوں کہ اپنے افغان بہن بھائیوں کی مدد کروں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے اب طالبان کے ہاتھوں اغوا ہونے پر کوئی افسوس نہیں کیونکہ اگر یہ نہ ہوا ہوتا تو میں اسلام کو ایک حقیقت کے طور پر نہ جان پاتا۔ اب مجھے افغانستان، وہاں کی ثقافت اور لوگوں سے محبت ہے جو میرے اپنے ہیں اور میں ان کے لیے کام کرنا چاہتا ہوں۔‘جبرائیل عمر (ٹموتھی ویکس) بتا رہے تھے کہ طالبان قید میں انھیں فرش بھی صاف رکھنا ہوتا تھا اور ٹھنڈے پانی سے طالبان کے کپڑے بھی دھونے ہوتے تھے جو اگر ٹھیک طرح صاف نہ ہوتے تو اس کا خمیازہ بھی انھیں مار کی صورت ہی بھگتنا پڑتا تھا۔
جبرائیل عمر (ٹموتھی ویکس ) افغانستان میں طالبان کی قید کے دوران اسلام قبول کرنے والے دوسرے فرد ہیں۔ اُن سے پہلے برطانوی خاتون صحافی ایون ریڈلی بھی ایسا کر چکی ہیں اور اسلام کی مبلغہ کے طور پر کام کر رہی ہیں۔ ایون ریڈلی کو افغان طالبان نے سنہ 2001 میں اغوا کیا تھا۔ایوان ریڈلی برطانوی صحافی خاتون ہیں جو 28 ستمبر2000ء کو خفیہ طور پر افغانستان میں داخل ہوتے ہوئے طالبان کی قید میں چلی گئی تھیں اور 10 دن تک طالبان کی قید میں رہیں۔ریڈلی لندن کے اخبار”سنڈے ٹائمز“ میں ایک صحافی کی حیثیت سے کام کرتی تھیں۔ جب امریکی وبرطانوی فوج کی طرف سے افغانستان پر حملہ ہونے والا تھا تو رپورٹنگ کے لیے انہوں نے اپنے اخبار کو افغانستان جانے کی پیش کش کی۔ پاکستان پہنچنے کے بعد انہوں نے افغانستان کا ویزا حاصل کرنے کی کوشش کی، مگر کامیابی نہ ملی، لیکن انہوں نے افغانستان جانے کا پختہ ارادہ کر لیا تھا، اس لیے ایک افغانی کی مدد سے جعلی شناختی کارڈ بنواکر وہ افغانستان میں داخل ہوگئیں۔ مگر بعد میں گرفتار ہوگئی۔
پروفیسرجبریل عمر کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے وقت کس طرح پرواز کر گیا، پتہ ہی چل نہ سکا۔ان کا کھانا بھی خاصا ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ کیونکہ گفتگو کے دوران انہوں نے ہاتھ روک رکھا تھا۔
اقبال نے شاید انہی کےلئے کہا تھا۔۔۔
ہے اسیری اعتبار افزا جو ہو فطرت بلند
قطرہ نیساں ہے زندان صدف سے ارجمند
ہر کسی کی تربیت کرتی نہیں قدرت،مگر
کم ہیں وہ طائر کہ ہیںدام و قفس سے بہرہ مند
شہپر زاغ و زغن دربند قید و صید نیست
ایں سعادت قسمت شہباز و شاہیں کردہ اند
دعا ہے کہ افغانستان کی قسمت اب اس نومسلم شہباز و شاہین کی کاوشوں سے پلٹ جائے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)