تحریر:مولانا عبد الحمید نعمانی
جات پات پر مبنی چار جاتوں والے طبقاتی نظام حیات، برہمن وادی سماج کی بنیادہے، اس نظام کو بنائے رکھنے کی ہر ممکن جدو جہد ،قدیم زمانے سے تمام تر ہندوتو وادی تحریکات کے بنیادی مقاصد اور اغراض کا حصہ ہے ۔ کسی بھی فاشسٹ تحریک میں جار حیت ، تنگ نظری ، دیگر سے نفرت اور اپنے تفوق کے جذبے و ذہن کے ساتھ باقی باشندوں کو محکوم و مجبور اور آگے کے مرحلے میں مقتول و مقہور کے زمرے میں رکھ دینا ، اس کے بنیادی عناصر و اجزاءہیں ، ماضی قریب کے اٹلی میں مسولینی کی سربراہی میں قائم فاشسٹ پارٹی (1921ء)اور جنگ عظیم اول کے بعد جرمنی میں ہٹلر کی قیادت میں نا زی پارٹی کے قیام کے ساتھ جس طرح کے حالات اٹلی ، جرمنی میں پیدا ہوئے ان کا مطالعہ و جائزہ سنگھ کے قیام (1925ء)سے اب تک کے بھارت میں وقوع پذیر صورت حال کے تجزیے سے یکساں حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے ، 2014ءاور 2019ء کے عام انتخابات کے نتائج سے جو سماجی تصویر اور سیاسی منظر نامہ سامنے آرہا ہے ، اس نے جمہوریت پسند اور بھارت کے تکثیری معاشرے کے تنوعات میں یقین رکھنے والوں کے سامنے کئی طرح کے سوالات کھڑے کر دیے ہیں ، بھارت کے آئین میں درج ترنگے جھنڈے ،جمہوریت اور سیکو لرزم پر مبنی انصاف، آزادی ، مساوات اور اخوت کے تحفظ و بقاء،معرض خطر میں نظر آرہا ہے ، جمہوری اداروں کا وجود بے معنی سا نظر آرہا ہے ، ابھی (ہندستان ٹائمز ، 23مارچ 2022ء)حال ہی میں کرناٹک آر ، ایس ایس کے رہ نما کلڈ کا پر بھاکر بھٹ نے کہا کہ اگر ہندو متحد ہو جائیں تو بھگو پرچم ملک کا قومی پر چم بن سکتا ہے ، ایک دن بھگو ا جھنڈا ہمارا قومی پرچم بن سکتا ہے ، انھوں نے سوال اٹھایا کہ موجودہ ترنگا جھنڈا سے پہلے کون سا جھنڈا تھا؟ اگر لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے ارکان کی اکثریت قومی پر چم کو تبدیل کرنے کے حق میں ووٹ دیتی ہے تو پر چم کو بدلا جا سکتا ہے “۔
یہ آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد آر، ایس ایس کے منصوبے اور خاکے میں رنگ بھرنے کی مسلسل جاری کوششوں کا حصہ اور عزائم کا اظہار ہے ، ملک کی آزادی کے موقع پر جب پورا ملک لال قلعہ پر ترنگا جھنڈا کی طرف نظر شوق سے دیکھنے کے لیے بے تاب تھا تو سنگھ کے انگریزی ترجمان آرگنائز (14اگست 1947ء)نے ترنگا کو نحوست بتاتے ہوئے لکھا تھا ،
’’جو لوگ وقت کی چال سے حکمراں بن بیٹھے ہیں ، وہ بھلے ہی ہمارے ہاتھوں میں ترنگے کو تھما دیں ، لیکن ہندو ا سے نہ کبھی اپنائیں گے اور نہ کبھی اس کی عزت کریں گے تین ہندسہ اپنے آپ میں برا ہے اور ایک ایسا جھنڈا جس میں تین رنگ ہوں بے حد خراب نفساتی اثر ڈالے گا اور ملک کے لیے نقصان دے ثابت ہوگا‘‘
بذات خود گرو گولولکر نے ایک سال پہلے(14جولائی 1946ء)میں گرو پورنما کے موقع پر ناگپور کے ایک جلسے میں کہا تھا کہ صرف بھگوا جھنڈا ہی مجموعی طور سے عظیم ہندستانی تہذیب کی علامت ہے ، ہمارے عظیم تہذیب کا مکمل تعارف دینے والی علامت، ہمارا بھگوا جھنڈا ہے ،جو ہمارے لیے بھگوان کی طرح ہے ،ہمارا کامل یقین ہے کہ آخر میں اس جھنڈے کے سامنے سارا ملک سرنگوں ہوگا، (شری گروجی سمگر ، جلد اول صفحہ 18اور 98 مطبوعہ بھارتیہ سادھنا پرکاشن ناگپور)
ہمارے لیڈروں نے ہمارے ملک کے لیے ایک نیا جھنڈا تجویز کیا ہے انھوں نے ایسا کیوں کیا؟ یہ تباہی کی طرف بہنے اور نقلچی پن کا واضح ثبوت ہے ۔(دیکھیں Bunch of Thoughts صفحہ 237 مطبوعہ ساہتیہ سندھو پرکاشن بنگلور ،ساتواں آڈیشن 2017ء) سنگھ کے سربراہ اور اعلیٰ عہدے دار سوال کی زد میں آجانے کے بعد ملک کو گمراہ کرنے کے لیے ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ سنگھ اور بی ، جے پی کے نزدیک اعلیٰ فکری رہ نما گرو گولولکر ہی ہیں ، جن کو گاندھی ، نہرو، مولانا آزاد ؒ کی جگہ رکھنے کا پورا جتن کیا جا رہا ہے ۔ گرو گولولکر نے بھارت کے آئین کے متعلق کہاتھا کہ اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کو ہم اپنا کہہ سکیں ، کیا اس کے رہ نما اصولوں میں ایک بھی لفظ اس کے بارے میں دیا گیا ہے کہ ہمارا نصب العین اور ہماری زندگی کا اصل مقصد کیا ہے ؟ نہیں (دیکھیں کتاب کا صفحہ238 )
یہ نقطہ نظر اپنانے کی وجہ آئین میں پیش کر دہ با اعتبار حیثیت اور موقع، مساوات کا نظام ، ہندو راشٹر میں بڑی رکاوٹ ہے ، سنگھ ، بی ، جے پی کے تمام اعلیٰ ، اشرافی طبقے، برہمن ، چھتری ، ویش ، جات پات کی اونچ نیچ پرمبنی منو کے چار طبقاتی نظام حیات پر پوری مضبوط سے عمل پیرا ہیں ، اسی کے پیش نظر گیتا کو قومی کتاب قرار دے کر سرکاری نصاب میں شامل کرنے کا ابتدائی قدم اٹھایا جارہا ہے۔ اسی زمرے میں تلسی داس کی رام چرت مانس بھی آتی ہے ۔ ان دونوں شعری و مذہبی رنگ کی معروف کتابوں میں بہت سی اچھی اخلاقی باتیں اور اخلاقی تعلیمات بھی ہیں ، تاہم اونچ نیچ پر مبنی چار طبقاتی نظام کی دونوں نے زبردست طریقے سے حمایت و وکالت کرتے ہوئے باور کرانے کی کوشش کی گئی ہے کہ اونچ نیچ کا چار طبقاتی نظام برہما کا بنایا ہے ، اس لیے اس سلسلے میں اعتراض و اشکال با لکل عبث و بے معنی ہے ۔ اس کی زبردست وکالت گرو گولولکر اور پنڈت دین دیال اپادھیائے نے کی ہے ۔ (دیکھیں گولولکر کی کتاب و چار نونیت صفحہ 38-37 صفحہ357-358 اور Bunch of Thoughts کا صفحہ 37، 36 اور اپادھیائے کی کتاب ایکاتم مانو واد صفحہ 49 مطبوعہ جاگرتی پرکاشن نوئیڈا2001ء) اس تصور کی ڈاکٹر امبیڈکر نے زبردست مخالفت و مزاحمت کی ہے ، (دیکھیں ڈاکٹر امبیڈکر کی Writings and Speechesکی جلد نمبر1 اور جلد نمبر8 میں کاسٹ پر بحث )
گیتا اور رام چرت مانس کو نصاب میں شامل کرنے کا مطلب و مقصد ،جات پات پرمبنی چار طبقاتی نظام کو لاگو کرنا اور سماج کو اس کے زیر اثر لاکر جارحانہ ہندو نسل پرستی پر مبنی برہمن وادی سماج کی تشکیل اور ہندو راشٹر قائم کرکے بہ قول گو لولکر اشرافی طبقے کے تفوق والے عہد زریں ، شاندار ماضی کی واپسی ہے ،ماضی سے حال تک میں چار طبقاتی نظام اور برہمن وادی تصور کی محنت کش طبقات کے دانشوروں اور مصنّفین، زبردست طریقے سے مخالفت و مزاحمت کرتے رہے ہیں ،(دیکھیں بھدر شیل راوت کی کتاب ’’بھارت کی غلامی میں گیتا کی بھومکا‘‘ اور چرونجی لال سری واستو کی کتاب، ’’تلسی دوارا رام کی چرت کی ہتیا‘‘) گیتا میں کرشن کی زبانی ، ویش ،عورت اور شودر کو پاپ پون کی پیدا وار بتایا گیا ہے ۔ (دیکھیں گیتا باب9 ،شلوک 32)
نیز یہ بھی کہ سبھی دھرموں کو ترک کرکے میری پناہ میں آجاؤ، میں تجھے تمام پاپوں سے آزاد کردوں گا،( گیتا باب 18 ، شلوک 66)تلسی داس نے رام چرت مانس میں کبیر وغیرہ کے سماجی اور برابری کے تصور کی شدید مخالفت کرتے ہوئے جات پات اور طبقاتی نظام کی زبردست وکالت کی ہے ۔ اس کی تائید و وکالت اورتوسیع و تشہیر کا واضح مطلب ہے ،بھارت کے آئین کے مساوات اور انصاف کی بنیاد و تصور کا منہدم و بے اثر کرنے کی سمت میں پیش رفت وسعی، یہ ایک طرح سے بھارت کے آئین کو آئینہ دکھانے کی کوشش ہے ۔ کیا بھارت اتنا بدل گیا ہے کہ تمام ہندستانی گیتا اور رام چرت مانس کو من و عن، من سے مان لیں گے ؟
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)