نئی دہلی :جمعیۃ علماء ہند کے صدر اور نام نہاد بلڈوزر جسٹس کے خلاف اولین عرضی گزار مولانا محمود مدنی نے "بلڈوزر انصاف” کے خلاف فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے قانون کی حکمرانی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ انصاف کا خون کرنے والوں کو منہ توڑ جواب ملاہے۔ انھوں نے کہا، "یہ فیصلہ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ کسی بھی فرد کے قصوروار ہونے کا فیصلہ عدالت کا اختیار ہے نہ کہ انتظامیہ کا۔ سرکاری ادارے اور افسران جو عدالت بن کر لوگوں کی املاک کو منہدم کر رہے تھے، انہیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ ایسے غیر قانونی اقدامات ناقابل قبول ہیں، مولانا مدنی نے کہا کہ بلڈوزر جسٹس کے مکروہ عمل سے حکومتوں کے دامن بھی صاف نہیں ہیں ، امید ہے کہ حکومتیں اس فیصلے سے نصیحت حاصل کرے گی۔”
مولانا مدنی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان تمام افراد کو معاوضہ دیا جائے جن کی املاک بغیر مناسب قانونی عمل کے منہدم کی گئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ آئین ہر شہری کے بنیادی حقوق کی حفاظت کرتا ہےاور ان کے خلاف کسی بھی غیر آئینی اقدام کو روکا جانا ضروری ہے۔ جمعیۃ علماء ہند نے ہمیشہ اصول انصاف اور آئینی حقوق کی حفاظت کے لیے آواز بلند کی ہےاور اس فیصلے کے بعد ہمارا عزم مزید مضبوط ہوا ہے کہ ہم اس مقصد کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔اس موقع پر مولانا محمود اسعد مدنی نے جمعیۃ کے سبھی وکیلوں اور دیگر عرضی گزاروں کو مبارکباد دی جن کی جد و جہد سے انصاف کا چراغ جلا ہے۔ واضح ہو کہ ۔سپریم کورٹ نے آج اپنے تاریخی فیصلہ میں عدالت نے صاف کہا کہ بلڈوزر کارروائیوں کا عمل آئین کے تحت افراد کے حقوق کی خلاف ورزی ہے کسی بھی ملزم کی جائیداد سزا کے طور پر نہیں گرائی جا سکتی۔ عدالت نے حکومتی اختیارات کے غلط استعمال پر بھی روک لگا دیعدالت نے مزید کہا کہ جب بھی کسی جائیداد کو منہدم کرنے کا حکم دیا جائے، اس کے لیے عدلیہ کی نگرانی ضروری ہے تاکہ کسی بھی قسم کی غیر قانونی کارروائی سے بچا جا سکے۔ قابل ذکر ہے کہ مولانا محمود مدنی کی طرف سے دائر عرض نمبر 295/2022کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا