نوٹ:
سرکردہ بزرگ رہنما جناب مولانا سید ارشد مدنی صاحب صدر محترم جمعیۃ علماء ہند نے حال ہی میں ‘’دینک بھاسکر‘ کو دئے انٹرویو میں دو اہم باتیں کہی تھیں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے کہا تھا کہ ہمارے آباءواجداد ایک ہیں ۔مولانا نے اس بات سے اتفاق کیا حالانکہ کہ دونوں کی دلیل الگ تھی۔ مولانا نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ آر ایس ایس بدل رہا ہے اور اب وہ صحیح راستہ پر ہے، ان دونوں وضاحتوں کو الیکٹرانک میڈیا اور سنگھ کے حلقوں نے اپنے حق میں خوب استعمال کیا۔ معروف صحافی نیلانجن مکھو اپادھیائے کا مضمون ’بدلے ہوئے‘ آر ایس ایس کی پول کھولتا ہے اور حقائق سے پردہ اٹھاتا ہے یہ مضمون ان لوگوں کی آنکھیں کھولنے میں مدد کرتا ہے جو بھاگوت کے بیانوں کی روشنی میں اس کے رویہ پر اطمینان ظاہر کر رہے ہیں ،اسے ایک نقطہ نظر کے طور پر پیش کیا جارہا ہے:
7ستمبر منگل کی ایک سرخی حیران کن تھی۔ جن کا جذبہ یہ تھا ،’’سمجھدار مسلم رہنماؤں کو انتہا پسندی کی مخالفت کرنی چاہیے: موہن بھاگوت‘‘
آرٹیکل کے اقتباسات میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت کی ایک دن قبل ممبئی کے ایک عظیم الشان ہوٹل میں دی گئی تقریر کی تفصیلات کا حوالہ دیا گیا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک دانشمندانہ مشورہ ہے ، لیکن یہ الفاظ بہت سے فطری سوالات بھی اٹھاتے ہیں۔
سب سے پہلے انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کی ذمہ داری صرف مسلمانوں کی دہلیز پر کیوں ہونی چاہیے؟ کیا دیگر کمیونٹیز ، خاص طور پر اکثریتی ہندو کمیونٹی کے لوگوں کو آر ایس ایس کے سربراہ کی طرف سے کسی بھی کمیونٹی یا ریاست کے خلاف پرتشدد یا اتنے جارحانہ رویے کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے نہیں کہا جانا چاہیے؟ آخرکار یہ تنظیم ہندو سماج اور قوم کو مضبوط بنانے کے لیے پرعزم ہے۔
اگر اکثریتی برادری کے تمام لوگ اس طرح کے خیالات کا سہارا لینے سے پرہیز کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو کیا اس سے دونوں کو مضبوط نہیں کیاجائے گا؟
اہم بات یہ ہے کہ صرف ’’سمجھدار مسلمانوں‘‘ کو ہی غیر جمہوری اور معاشرے کو توڑنے والے اقدامات کی مخالفت کیوں کہا جانا چاہئے ، دوسرے طبقات کیوں نہیں؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ بھاگوت صرف فکری سطح کے مسلمانوں کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں؟ اگر ایسا ہے تو ، اس کمیونٹی کے ’غیر تخلیقی‘ ممبران کے ساتھ کون بات چیت کرتا ہے؟
کیا ایسی چیزوں کا مسلمانوں کے درمیان’’اچھے‘‘ اور’’برے‘‘ مسلمانوں کے درمیان لکیر کھینچنے جیسی بات سے کوئی لینا -دینا نہیں ہے؟ کہ ایک حصہ قومی کی تعمیر کے لیے ’’عقلی‘‘ اور ’’پرعزم‘‘ ہے اور ایک حصہ ’’گرم سر‘‘ اور ’’ فطری طور پر خلل ڈالنے والا‘‘ ہے ۔
کیا مسلمانوں کی اس طرح کی تصویرکشی کرنا آر ایس ایس اور اس کے اتحادیوں کو اپنے بنیادی حلقے کو منظم کرنے میں مدد دیتی ہے؟
آر ایس ایس سربراہ نے مسلسل ذکر کیا کہ’’ کمیونٹی کے ایک طبقہ کے ذریعہ کئے گئے پاگل پن جیسی حرکتوں ‘‘ کےخلاف ’’مسلمانوں میں سے سمجھ دار لوگوں کو بولنا چاہئے۔‘‘ یہ آر ایس ایس کے اس نقطہ نظر کو دوبارہ واضح کرتا ہے کہ فرقہ وارانہ تشدد اور دہشت گردی سرگرمیاں پوری طرح سے مسلمان کرتے ہیں۔
کسی بھی معاملے میں ان لیڈروں کے خلاف عدالتی معاملوں کو تقریباً پوری طرح سے ہٹا دیا گیا ،جو سنگھ پریوار کےایکو سسٹم کا حصہ ہیں اور جن پر دہشت گردی تشدد کا الزام لگا یا گیا تھا، کیونکہ انہیں کانگریس کی قیادت والی سابقہ حکومت کے ذریعہ ہندوؤں کو ’ برا‘ نام دینے کے لیے ’’ پھنسایا ‘ گیا تھا۔
بھاگوت کی تشکیل اس قیاس پر مبنی ہے کہ ہندو سماج بنیادی طور پر امن پسند اور قدرتی طور پر دوسرے مذاہب کا روادار ہے ، اس لئے ان کو صرف خود کو ہندو ماننا ہے ، وہ خود پر ہندو کا لیبل لگاتے ہوئے دیگر مذاہب کا بھی ’’ پریکٹس‘‘ کر سکتے ہیں ۔
یہ الگ بات ہے کہ وی ڈی ساورکر سے لے کر بھاگوت تک ، ہندو راشٹر وادی فرقے کے تمام مفکرین اور لیڈروں نے اچھوت کو ہندومت کے سب سے بڑے منفی میں سے ایک تسلیم کیا اور اس کے خلاف مہم چلائی،نہ کہ کم سے کم تقریباً ایک صدی تک پوری کامیابی کے ساتھ۔ پیدائشی شناخت پر مبنی امتیازی سلوک ہندو مذہب کے لیے اینڈمک (کبھی نہ ختم ہونے والی بیماری) ہے ۔ اور ذات پر مبنی مردم شماری پر بحث یہ ثابت کرتی ہے کہ یہ معاصر ہندوستان میں ایک حقیقت ہے ۔ اس کے باوجود مہذب اور غیر متشددطرز عمل کا بوجھ صرف مسلمانوں پر ڈالا جاتا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ آر ایس ایس سربراہ کو اس بات کی جانکاری نہیں ہوگی کہ کیرل کے ساحلی علاقے میں کم سے کم نویں شتابدی تک مسلمانوں کی موجودگی درج کی گئی تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ کوئی اس زبانی روایات پر یقین نہیں کرنا چاہتا کہ اس علاقے میں پیغمبرؐ کے حیات کےدوران وہاں آنے کےساتھ اسلام وہاں آیا ۔
بھاگوت کا یہ کہنا درست ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کوکسی بھی چیز سے ڈرنے کے لیے کوئی وجہ نہیں ہے ، کیونکہ ہندو کسی سے دشمنی نہیں رکھتے ہیں۔ لیکن نڈر ہونے کی اس حالت تک پہنچنے کے لیے ، مسلمانوں کو اپنی منفرد شناخت کو ترک کرنے اور ہندو ہونے کو قبول کرنے کی شرط ، دعوت میں فطری طور پر ہے۔
مسلمانوں کے لیے چیلنج ہے، بغیر کسی ڈر کے اور احترام کے ساتھ رہنا، جیسا کہ آئین میں پنہاں ہے،لیکن یہ تبھی ممکن ہو پائے گا جب ہندو یا ان کے خودساختہ نمائندے مسلمانوں کو اکثریتی برادری کی شناخت میں شامل کرنے کے لیے نہیں کہیں گے ۔
اس سال کے شروعات میں ، آر ایس ایس سے وابستہ مسلم راشٹریہ منچ کے زیر اہتمام ایک تقریب میں بھاگوت نے مسلمانوں سے کہا تھا کہ وہ ’’اس خوف کے چکر میں نہ پھنسیں کہ بھارت میں اسلام خطرے میں ہے۔‘‘
آر ایس ایس سربراہ کےذریعہ بار بار ان تقریروں کے ذریعے سے تبدیلی کا بھرم پیدا کرنے کے مقصد سے ، ہندوؤں کے درمیان بے چین حامیوں کو یہ یقین دلانے کی وجوہات دی جا رہی ہیں کہ آر ایس ایس بدل گیا ہے اور سابقہ والی مسلمانوں کے تئیں نفت کو چھوڑ دیا گیا ہے ۔ یہ تبدیلی ہر لحاظ سے کاسمیٹک(بناوٹی) ہے اورسچ کے گوئبلین کے اصول (Goebelian Principle of An Untruth)پر مبنی ہے ، جس کے مطابق اگر ایک جھوٹ کو بار بار دہرایا جائے تو یہ سچ ہو جاتا ہے۔
بھاگوت کے کسی ایک دعوے کا جائزہ لیتے وقت دورکے ساتھ – ساتھ نزدیکی ماضی کا جائزہ لینا بھی ضروری ہے ۔ کورونا لوجی سمجھئے ،جیسا کہ اس سال کی شروعات میں پارلیمنٹ میں کہا گیا تھا۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)