سراج نقوی
چند روز قبل سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری ،جس میں ایک کارٹون کے نیچے ایڈورڈ اسنوڈن کا ایک قول بھی نقل گیا تھا۔قول یہ تھا’’جب جرم کے انکشاف کو (حکمرانوں کے ذریعہ)جرم کا ارتکاب مان لیاجائے تو (سمجھ لیجیے)آپ مجرموں کی حکمرانی میں ہیں۔‘‘اس اجمال کی تفصیل بیان کرنے کے لیے بی جے پی کے 7سال کے دور اقتدار کو محض اشارتاً پیش کرنا بھی کسی مختصر مضمون میں ممکن نہیں۔اس بات پر بھی بحث ممکن نہیں کہ کس طرح محض 24گھنٹے میں اوم پرکاش چوٹالہ،اجیت پوار، مکل رائے اور ان جیسے ایک درجن سے زیادہ لیڈراپنی سیاسی وفاداری بی جے پی کے تئیں ظاہر کرنے کے بعد بدعنوانی کے سنگین الزامات کے باوجود سرکاری جانچ ایجنسیوں کی کلین چٹ سے نواز دیے گئے اور کس طرح بہار کے پپّو یادو یا ان جیسے بہت سے لیڈروں کو اس لیے جیل بھیج دیا گیا کہ انھوں نے حکمرانوں کی بدعنوانی کی پول کھولنے کا جرم کیا تھا۔
مذکورہ صورتحال درحقیقت بی جے پی حکمرانوں کی بے حسی،بے شرمی،اقتدار کے ناجائز استعمال اور طاقت کے بل پر جمہوریت کو یرغمال بنانے کی کوششوں کا ثبوت ہے۔لیکن صرف حکمرانوں کو کٹہرے میں کھڑا کر دینے اور ان کے عیوب پر تنقید کر دینے سے بات ختم نہیں ہو جاتی۔اس لیے کہ کم و بیش حکمرانوں کی ہمیشہ ہی یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ اقتدار کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کریں۔لیکن ایک جمہوری نظام میں اپوزیشن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ برسر اقتدار جماعتوں کی ان کوششوں کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہو کر عوام میںبے داری پیدا کریں اور بد عنوان و نااہل حکمرانوں کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے متحدہ حکمت عملی تیار کریں۔
بد قسمتی سے مرکز سے لیکر ملک کی مختلف ریاستوںتک میں اپوزیشن پارٹیاں اس متحدہ حکمت عملی سے کوسوں دور ہیں۔حالانکہ مغربی بنگال کے نتائج اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر بھگوا طاقتوں کے مقابلے میںمضبوطی سے لڑا جائے تو انھیں دھول چٹاناکچھ مشکل نہیں۔لیکن شمالی ہند کی بیشتر ریاستوں کے حالات مختلف ہیںاور یہاں اس متحدہ حکمت عملی کے لیے کئی کوشش بھی نظر نہیں آتی۔بہار میں اپوزیشن نے کس بے بسی کے ساتھ الیکشن کمیشن اور بی جے پی کے سامنے جیتی ہوئی بازی کو اپنی شکست تسلیم کرکے اقتدار سے محرومی کو اپنا مقدر مان لیا یہ سب کے سامنے ہے۔ملک کی کئی دیگر ریاستوں میں بی جے پی نے جس طرح الیکشن میں واضح جیت حاصل نہ کرنے کے باوجود ممبران اسمبلی کی وفادرایاں بدلوا کراقتدار پر قبضہ کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ اس تمام صورتحال کے لیے پست حوصلہ،بے حس اور خود غرض اپوزیشن پارٹیاں ہی ذمہ دارہیں،اور یہ بات طے ہے کہ اگر اتر پردیش میں آئیندہ برس ہونے والے اسمبلی الیکشن میں اپوزیشن اسی بے حسی اور خود غرضی کا شکار رہی تو بی جے پی کے خلاف عوامی فیصلہ بے اثر ہو سکتا ہے۔
اتر دیش بی جے پی کے لیے کتنا اہم ہے یہ بتانے کی ضرورت نہیں لیکن ریاست کی موجودہ صورتحال کسی بھی طرح حکمراں جماعت کے لیے باعث اطمینان قرار نہیںدی جا سکتی۔اس کا سبب بھی واضح ہے۔ایک طرف تو کورونا سے نمٹنے کے معاملے میںریاستی حکومت اور انتظامیہ کی کارکردگی پر ملک بھر میں بلکہ اس سے باہر بھی سوال اٹھے ہیں،دوسری طرف خود ریاست میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے کہ جو کچھ عرصہ پہلے تک بی جے پی کے زبردست حامی سمجھے جاتے تھے لیکن مختلف اسباب سے اس وقت ریاستی حکومت و انتظامیہ سے سخت ناراض ہیں ۔اس کا سبب ریاستی حکومت کا وہ رویہ ہے جس میں غیر تو غیر اپنوں کے بھی اختلاف رائے کو دبانے کی کوششیں حکومت اور انتظامیہ کر رہی ہے۔ریاست میںایسے کئی ممبران اسمبلی اور بی جے پی لیڈر ہیں جو یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر انھوں نے سچ بولا تو ان پر ملک سے بغاوت یا دیگر سنگین دفعات کے تحت مقدمہ درج ہو جائیگا۔یعنی اختلاف رائے کو سننے کی تاب حکمرانوں میں نہیں ہے۔لیکن اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اپوزیشن پارٹیوں میں بھی یہ حوصلہ نہیں کہ وہ بی جے پی حکومت کی پالیسیوں کے خلاف کھل کر میدان میں آسکیں۔خصوصاً سیکولرزم اور اقلیتوں و پسماندہ طبقات کے حقوق کے معاملے میں تو اپوزیشن پارٹیاں صرف ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر ٹوئٹر پر دیے جانے والے بیانات تک محدود ہو گئی ہیں۔بی ایس پی سپریمو مایاوتی تو اس معاملے میں بھی ’سیف گیم‘کھیلنے کی روش پر گامزن ہیں۔ممکن ہے تاج کاریڈور معاملے میں بی جے پی حکمرانوں کے پاس دبی ہوئی فائیلیں اس کا سبب ہوں۔ویسے بھی مایاوتی اور سیکولرزم کا رشتہ ہمیشہ ہی سوالوں کے گھیرے میں رہاہے۔مودی کو گجرات اسمبلی کا الیکشن لڑانے کے لیے وہ ماضی میں گجرات تک جا چکی ہیں۔اتر پردیش میں بھی بی ایس پی دلت ووٹوں کا سودا کر سکتی ہے،بشرطیکہ دلت سینا کے چندر شیکھران کے راہ کی دیوار نہ بن جائیں۔جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پرینکا گاندھی اتر پردیش میں سخت محنت کر رہی ہیں اور پارٹی کے ریاستی صدر اجے کمار للو بھی بیشتر عوامی ایشوز،جن میں مسلمانوں کے مسائل بھی شامل ہیں اٹھانے میں کسی قدر فعال نظر آتے ہیں، لیکن ان لیڈران کی یہ فعالیت کانگریس کو اتر پردیش میں اقتدار دلانے میں کامیاب ہو پائیگی اس کا امکان فی الحال نظر نہیں آتا۔اس کا سبب بھی ہندوتو اور سیکولرزم کے تعلق سے اس کا دوہرا رویہ ہے۔
مذکورہ دونوں پارٹیوں کے علاوہ سماجوادی پارٹی بھی اتر پردیش کی اپوزیشن پارٹیوں میں خود کو اقتدا کی مضبوط دعویدار مان رہی ہے۔حالانکہ سماجوادی پارٹی کا روائتی ووٹر اب اس سے کافی دور جا چکا ہے۔ کئی دہائی تک مسلم ووٹوں کے سہارے اقتدار کے مزے لوٹنے والی یہ پارٹی مسلمانوں سے کافی دور جا چکی ہے۔اکھیلیش کا پانچ سال کا دور اقتدار اور اس کے بعد یوگی حکومت میں پارٹی کا جو رویہ رہا ہے اس نے عام طور پر مسلمانوں کو اس پارٹی سے بد ظن کر دیا ہے۔یہ الگ بات کہ اکھیلیش یادو اس کج فہمی کے شکار ہیں کہ مسلمان انھیں چھوڑ کہیںنہیں جا سکتے۔ ممکن ہے دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی عدم فعالیت اور مسلمانوں کے تعلق سے پائی جانے والی بے رخی اکھیلیش کی اس کج فہمی کو درست ثابت کر دے۔لیکن سماجوادی پارٹی کے لیے دوسری پریشانی یہ ہے کہ خود یادو ووٹ بھی پوری طرح اس کے ساتھ نہیں ہے۔گذشتہ اسمبلی الیکشن میںیادو برداری نے بی جے پی کو ووٹ دیکر ثابت کر دیا تھا کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں۔دوسری بات یہ کہ پارٹی میں تقسیم کے بعد شیو پال یادو اب اپنی الگ پارٹی بنا چکے ہیں اور اگر چچا بھتیجے میں کوئی سیاسی مفاہمت نہیں ہو سکی تو یادو ووٹ کئی جگہ تقسیم ہو سکتا ہے۔لیکن شائد اکھیلیش کو اس کی پرواہ نہیں۔وہ کسی قیمت پر سیکولرزم کے حق میں کھڑے ہونے اور مسلمانوں و دلتوں کو اپنی پارٹی سے مضبوطی سے جوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اس کا سبب بی جے پی اور ان کی پارٹی کے درمیان کوئی درپردہ معاہدہ ہے یا کچھ اور یہ تو وہی بہتر جانتے ہونگے لیکن ایک بات بہرحال طے کہ اس کے نتیجے میں اتر پردیش میں مسلسل کمزور ہو رہی بی جے پی کو فائدہ پہنچ سکتاہے۔باوجود اس کے بی جے پی کی شکست کے تمام حالات ریاست میں موجود ہیں۔یہ بات بھی جگ ظاہر ہے کہ خود بی جے پی میں داخلی اختلافات کم نہیںہیں،لیکن یہاں آر ایس ایس اور اقتدار کو مضبوطی دینے والے تمام اداروں پر پارٹی کا قبضہ اس کے لیے مددگار ہو سکتا ہے۔جب کہ اپوزیشن پارٹیوں نے اگر خود کو اسی طرح بی جے پی کے سامنے بے بس کر لیا تو اسے شکست دینے کے تمام منصوبے خاک میں مل جائینگے۔دوسری طرف باقی اپوزیشن پارٹیوں میں بھی بی جے پی کو شکست دینے کے لیے کسی متحدہ حکمت عملی پر غور کرنے کا سلسلہ کم از کم ابھی تک تو شروع نہیں ہوا ہے۔جب کہ بی جے پی نے ’ہر سطح‘ پر اپنی تیاری شروع کر دی ہے۔
[email protected]
Mobile:-09811602330