نقطہ نظر:شکیل اختر
کابل میں ایک انڈین وفد کی طالبان حکام سے ملاقات کو خاصی دلچسپی سے دیکھا جا رہا ہے اور بعض مبصرین اسے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی طرف ایک اشارہ سمجھ رہے ہیں۔دراصل گذشتہ دنوں انڈین وزارت خارجہ کے ایک اعلی اہلکار جے پی سنگھ نے ایک انڈین وفد کے ہمراہ کابل میں افغانستان کے عبوری وزیر دفاع ملا محمد یعقوب اور قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی اور افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی سے ملاقات کی۔یہ انڈین وزارت خارجہ کے کسی اعلی اہلکار کی ملا محمد یعقوب سے پہلی باضابطہ ملاقات تھی۔ ملا یعقوب طالبان تحریک کے بانی ملا عمر کے بیٹے ہیں اور موجودہ حکومت میں وہ ایک بااثر رہنما مانے جاتے ہیں۔انڈین اہلکار سے ملاقات کے بعد طالبان حکومت کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا کہ ’اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے باہمی رشتوں کو وسعت دینے اور دونوں ملکوں کے درمیان روابط بڑھانے پر زور دیا ہے۔‘بعض افغان اہلکاروں کے حوالے سے انڈین میڈیا نے خبر دی ہے کہ یہ ملاقات اس بات کا اشارہ ہے کہ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود انڈیا اب انسانی بنیادوں پر دی جانے والی امداد سے آگے کی راہ دیکھ رہا ہے۔ آنے والے دنوں میں دونوں ممالک کے بیچ تعلقات میں مزید پیشرفت کا امکان ظاہر کیا گیا ہے
••انڈیا نے طالبان کو کیا پیغام دیا؟
بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے جمعرات کو میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ افغان رہنماؤں سے بات چیت میں انڈین اہلکاروں نے دیگر باتوں کے علاوہ ایران کی چابہار بندرگاہ کے راستے افغانستان کو تجارت کی پیشکش کی ہے۔ان کے بقول انڈین اہلکاروں نے طالبان کو بتایا کہ ’کس طرح ایران کے تاجر اور بزنس مین ایران کی چابہار بندرگاہ سے اپنے مال کی برآمد اور درآمد اور دیگر کاموں کے لیے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ایران میں چابہار بندرگاہ انڈیا تعمیر کر رہا ہے جسے پاکستان کے ساحلی شہر گوادر میں چین کے ذریعے تعمیر کی جانے والی بندرگاہ کے متبادل کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔کابل میں اس ملاقات سے چند ہفتے قبل طالبان کے بعض اہلکار دلی کا دورہ کر چکے ہیں۔ کچھ عرصے سے انڈیا افغانستان کی طالبان حکومت سے اپنے تعلقات رفتہ رفتہ استوار کرنے کی طرف قدم بڑھا رہا ہے۔افغانستان میں 2021 میں طالبان کے آنے بعد انڈیا نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ دلی میں افغانستان کے سفارتخانے میں گذشتہ حکومت کے جو سفارتکار تھے وہ یہاں سے جا چکے ہیں .کسی بھی ملک نے اگرچہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا تاہم علاقائی ممالک بشمول چین، روس، پاکستان، ایران اور قطر کا سفارتخانے اب بھی کابل میں موجود ہیں۔ حال ہی میں انڈیا نے کابل میں سفارتی مشن بحال کیا۔طالبان ایک عرصے سے انڈیا پر زور دے رہے ہیں کہ وہ طالبان کی وزارت خارجہ کے سفارتکاروں کو یہاں مامور کرنے کی اجازت دے۔اس ملاقات میں بھی طالبان نے سفارتکاروں کی تقرری سے متعلق سوال اٹھایا تھا۔ اب ایسی اطلاعات آ رہی ہیں کہ انڈیا طالبان کے سفارتکاروں کو دلی میں مامور کرنے کی اجازت دینے پر غور کر رہا ہے۔طالبان انڈیا کو کئی بار یہ یقین دہانی کرا چکے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کو انڈیا مخالف سرگرمیوں کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔
••طالبان سے تعلقات میں بہتری انڈیا کے مفاد میں ہے‘
انڈیا میں بعض مبصرین کے لیے یہ صورتحال افغانستان میں طالبان حکومت سے تعلقات میں بہتری میں اچھا موقع ہے۔جیندل یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کی پروفیسر بلقیس داؤد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ملا محمد کی انڈین اہلکاروں سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ یہ ملاقات اس لیے بھی اہم ہے کہ وہ ملا عمر کے بیٹے ہیں اور طالبان کے اہم رہنما ہیں۔ طالبان نے بھی اس ملاقات کو بہت اہمیت دی ہے۔’وزارت دفاع نے ایکس پر ملا یعقوب اور انڈین وزارت خارجہ کے نمائندے جے پی سنگھ کی ملاقات کی تصویر پوسٹ کی اور تعلقات بہتر کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اںڈیا بھی اب طالبان سے تعلقات بہتر کرنا چاتا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ افغانستان میں صرف چین اور پاکستان کا اثر رہے۔‘پملا یعقوب اس سے پہلے بھی انڈیا سے مضبوط رشتے قائم کرنے کی باتیں کرتے رہے ہیں اور دفاع کے شعبے میں بھی اشتراک کی امید کر رہے ہیں .طالبان کے ساتھ ساتھ اب انڈیا بھی تعلقات کی بحالی میں زیادہ دلچسپی دکھا رہا ہے۔ ’اںڈیا کے تعلقات چاروں طرف اپنے پڑوسیوں سے اچھے نہیں ہیں۔ یہ انڈیا کے مفاد میں ہے کہ وہ طالبان سے تعلقات بہتر کرے کیونکہ وہ یہ نہیں چاہے گا کہ طالبان بھی اس کے خلاف ہو جائیں۔’وہ نہیں چاہے گا کہ چین اور پاکستان افغانستان کو انڈیا کے خلاف استعمال کریں۔‘رواں سال انڈیا اور مالدیپ کے درمیان سرد مہری رہی تھی تاہم اکتوبر میں انڈیا نے مالدیپ کی معاشی بحالی کے لیے ہزاروں ڈالر قرض دینے پر رضامندی ظاہر کی۔مئی میں نیپال کے نئے نقشے کے ساتھ جاری کیے جانے والے 100 روپے کے نیپالی نوٹ کے اجرا پر انڈین حکام نے ناراضی ظاہر کی تھی۔ جبکہ ماضی قریب میں بھوٹان کی طرف سے چین سے بہتر سفارتی تعلقات استوار کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔یاد رہے کہ سری لنکا میں ستمبر کو بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھنے والے سیاست دان انورا کمارا ڈسانائیکے نئے صدر بنے ہیں جنھیں چین کا حامی سمجھا جاتا ہے۔بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ اپنی حکومت جانے کے بعد سے انڈیا میں موجود ہیں جہاں انھیں سیاسی پناہ دینے کا معاملہ زیرِ بحث ہے۔
ادھر انڈیا کے خارجہ امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ انڈیا اور طالبان کی حکومت، دونوں کے درمیان باہمی اعتماد کی کمی ہے۔ انڈیا نے طالبان کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن اگر وہ دلی میں افعان سفارتخانے میں طالبان کے سفارتکاروں کو مامور کرنے کی اجازت دیتا ہے تو یہ تعلقات کی باضابطہ بحالی کی جانب ایک بڑا قدم ہے
( یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں، بشکریہ بی بی سی )