بدھ سے مغربی کنارے کے علاقوں اور کیمپوں میں اسرائیلی دراندازی اور گرفتاریوں کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ تاہم یاد رہے مغربی کنارہ کئی سالوں سے اسرائیلی آباد کاروں کے بار بار حملوں کا سامنا کر رہا ہے۔ سات اکتوبر کے بعد سے مغربی کنارے میں یہودی آباد کاروں کی کارروائیوں میں شدت آگئی ہے۔
اسرائیلی حکام ان آباد کاروں کو مسلح کرتے ہیں اور انہیں جوابدہ ٹھہرانے اور ان کی خلاف ورزیوں کو روکنے میں سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف یہ حکام فلسطینی پولیس تک کو بھی ہتھیار دینے سے انکار کر دیتے ہیں۔دریں اثنا قومی سلامتی کے انتہا پسند وزیر اتمار بین گویر نے آباد کاروں کے اپنے دفاع پر فخر محسوس کیا۔ یاد رہے اسرائیلی حکام فلسطینیوں پر حملہ کرنے والے یہودی آباد کاروں میں سے کسی کے خلاف قانونی چارہ جوئی سے انکار کر دیتے ہیں اور حملہ آور یہودیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔30 لاکھ سے زیادہ مغربی کنارہ دریائے اردن کے مغرب اور یروشلم کے مشرق میں واقع ہے اور بین الاقوامی قوانین کے تحت متعدد غیر قانونی بستیوں کی موجودگی کے باوجود یہاں پر 30 لاکھ سے زیادہ افراد آباد ہیں جن میں سے زیادہ تر فلسطینی ہیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل اسرائیلی بستیوں کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتے۔ خاص طور پر چونکہ 1947 کے بعد طے پانے والے بیشتر معاہدوں میں تسلیم کیا گیا تھا کہ مغربی کنارے کا بیشتر حصہ مطلوبہ فلسطینی ریاست کا حصہ ہے۔تاہم 1967 کے بعد کے سالوں میں اسرائیلی قیادت نے اس اصول کو پس پشت ڈال دیا اور مزید بستیوں کے قیام کی منظوری دے کر مغربی کنارے اور القدس کی زمینوں کو ضم کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیل نے فلسطینی اتھارٹی کو صرف 1993 میں اوسلو معاہدے کے بعد مغربی کنارے کے کچھ حصے کا انتظام کرنے کی اجازت دی ہے۔
1980 اور 1990 کی دہائیوں اور 2000 اور 2005 میں فلسطینی اراضی پر اسرائیلی توسیع اور الحاق نے فلسطینی بغاوتوں کو بڑھاوا دیا ہے۔ فی الحال مغربی کنارے میں ایک سال سے زائد عرصے سے تشدد میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن 7 اکتوبر کو حماس کے حملے اور غزہ پر اسرائیلی جنگ کے آغاز کے بعد صورتحال مزید بگڑ گئی ہے۔