تحریر:مکیش کمار
منشیات معاملے میں نارکوٹکس کنٹرول بیورو سے آرین خان کو کلین چٹ ملنے کے بعد میڈیا ایک بار پھر زیربحث ہے۔ اس معاملے میں میڈیا کے کردار کو نشان زد کرتے ہوئے لوگ میڈیا کو کوس رہے ہیں، ان سے معافی مانگنے کو کہہ رہے ہیں۔ بہت سے لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایسے نیوز چینلز اور ان کے صحافیوں کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہونے چاہئیں جنہوں نے نہ صرف بے گناہ آرین خان کے خلاف پروپیگنڈا کیا بلکہ یکطرفہ طور پر اس کارروائی کی حمایت بھی کی۔
آرین خان کی گرفتاری سے لے کر انہیںضمانت نہ ملنے دینے کی کوششوں تک بار بار یہ صاف نظر آرہاتھا کہ این سی بی کسی خاص ایجنڈے کے تحت کام کررہی ہے۔ ایک مسلمان سپر اسٹار کے بیٹے کو جھوٹے الزامات میں پھنسانے کی بات اب این سی بی خود کہہ رہی ہے ۔ مگر جن کی آنکھیں بند نہیں تھیں، وہ تب بھی اس سچائی کو دیکھ پا رہے تھے ۔ مین اسٹریم کی میڈیا کو یہ نہیں دیکھا۔
اسے این سی بی اور اس کے متنازع افسر سمیر وانکھیڑے کی کارروائی میں کوئی کھوٹ نظر نہیں آیا۔ گرفتاری اور اس کے بعد بی جے پی لیڈروں کی این سی بی دفتر میں موجودگی پر بھی آنکھیں بند رکھیں۔ میڈیا نے آرین خان کی گرفتاری کے دوران مانگے گئے پچاس لاکھ کے تاوان کو سنسنی خیز انداز میں پیش کیا لیکن وہاں بھی ان کا رویہ یک طرفہ رہا۔ یہاں تک کہ آرین کو ضمانت نہ ملنے کی کوششوں کے باوجود وہ کھڑے نظر آئے۔
اکثر لوگ اس پورے معاملے کو آرین کے میڈیا ٹرائل کے طور پر پیش کررہے ہیں ، لیکن حقیقت میں یہ اس سے کہیں بڑے جرم میں ملوث کا معاملہ ہے۔ میڈیا ایک بے گناہ کو نہ صرف بدنام کرنےمیں مصروف تھا، بلکہ وہ اس کو پھنسانے میںلگے لوگوں کو بچانے اور انہیں ہیرو کےطور پر پیش کرنے میںبھی لگاہواتھا۔ اس کا جرم جتنا نظر آتاہے اس سے کئی گناہ بڑا ہے ۔
اس اسکینڈل میں میڈیا کے اس کردار میں اقتدار کےساتھ بھاگیداری کو دیکھنے کے لئےاس وقت میں لوٹنا ہوگااور اس وقت کے سیاق وسباق کوبھی دیکھنا ہوگا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ اس وقت اترپردیش کےانتخابات کےلئے ماول گرمایا جارہاتھا، ہندو -مسلم کابیانیہ بنایا جار ہا تھا۔ بہت سارے لوگوں کا مانناہے کہ اس کے لئے ایک ایسے سپر اسٹارکو دبوچا گیا جو مسلمان ہیں اور ہندوتوا وادیوں کی آنکھوں میں چبھتے بھی رہے ہیں ۔ لہٰذا اسے ان کے بیٹے کے ذریعہ انہیں سبق سکھانے کی بھی ایک کوشش مانی گئی ہے ۔
پھر اسی دوران اڈانی بندرگاہ پر منشیات کی ایک بڑی کھیپ پکڑی گئی۔ وہ کہاں سے آئی، کیسے آئی اور کیا پورٹ پر منشیات کی آمد و رفت کا عمل پہلے سے ہو رہا تھا، یہ سوالات اٹھنے لگے۔ لیکن میڈیا نے اس پر توجہ نہ دینا ہی بہتر سمجھا۔ منشیات کے ذخیرے کی بازیابی کو چھوڑ کر، اس نے منشیات کے استعمال کا مقدمہ شروع کیا جو دراصل جھوٹا، جعلی تھا۔ کیا وہ ملک کی توجہ ہٹانے کے لیے اس چال میں کوئی کردار ادا کر رہا تھا؟
واضح طور پر یہ میڈیا ٹرائل نہیں تھا۔ جیسا کہ اس نے سشانت راجپوت کے معاملے میں کیا، یہ صرف میڈیا ٹرائل نہیں تھا۔ ریا چکرورتی کے معاملے میں این سی بی کا ایجنڈا بھی سامنے آ گیا ہے۔ اس اسکینڈل میں مرکزی حکومت کے رول سے بھی سبھی واقف ہیں۔ سبھی جانتے ہیں کہ یہ معاملہ مہاراشٹر کا تھا، لیکن بہار میں مقدمہ درج کرنے کے بعد تحقیقات اپنے ہاتھ میں لے لی۔ گرفتاریاں من مانی کی گئیں۔ میڈیا نے حکومت کے ہر اقدام کو جائز اور ضروری قرار دیا۔ اور یاد رہے کہ وہ وقت بہار کے اسمبلی انتخابات کا تھا۔
آپ مرکزی ایجنسیوں اور میڈیا کے کردار کے درمیان ایک قسم کی ہم آہنگی دیکھ سکتے ہیں، دونوں کا امتزاج۔ یہ حادثاتی نہیں ہے۔ یہ صرف ٹی آر پی اکٹھا کرکے کاروبار کرنے کا معاملہ نہیں ہے۔ سچ یہ ہے کہ میڈیا نوم چومسکی کے پروپیگنڈہ ماڈل پر کام کر رہا ہے۔ وہ اقتدار والوں کا ہتھیار بن کر ان کے لیے پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حکومت ملک میں جس قسم کی رضامندی چاہتی ہے، وہ اسے بنانے میں مصروف ہے۔ اس کے لیے اگر اسے اندھیرے کو سفید کرنا پڑے تو اسے اس میں کوئی اعتراض نہیں۔
حکومتیں ان میڈیا اداروں کی سرپرستی کرتی ہیں جو دل و جان سے اس کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مصروف ہیں جس کی تصدیق اس وقت بھی ہو رہی ہے پھر بھی میڈیا کا ایک چھوٹا سا طبقہ اپنا کام ایمانداری سے کر رہا ہے لیکن اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے یہ بھی دیکھنا چاہیے۔ اسے دھمکیاں دی جا رہی ہیں، چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ اس کے خلاف مقدمات بنائے جا رہے ہیں تاکہ اسے خاموش کیا جا سکے۔
اس لیے معافی مانگنا فضول ہے، مضحکہ خیز ہے۔ یہ ہماری بچگانہ پن ہے کہ میڈیا کے اس کردار کو سمجھے بغیر ہم ایسا مطالبہ کر رہے ہیں، جیسے ہمیشہ ایمانداری کے راستے پر چلنے والے سے کوئی غلطی ہو گئی ہو اور وہ معافی مانگ لے تو بہت ہو گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ میڈیا اتنا گستاخ ہے کہ بالکل معافی نہیں مانگے گا، نہ اس کی فطرت میں ہے اور نہ ہی اس کے مالکان کو ان سے اس کی توقع ہے۔ وہ روزانہ بڑی غلطیاں کرتا ہے اور معافی مانگے بغیر آگے بڑھتا ہے۔ اس بار بھی وہ ایسا ہی کرے گا۔ اگر کچھ ہلکے سے بھی کہا جائے تو اس کا کوئی مطلب نہیں ہوتا۔
میڈیا اگر مافیا میں تبدیل ہو کر منظم جرائم پیشہ گروہ کی طرح برتاؤ کرنے لگے تو اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کارروائی کون کرے گا؟ اگر ایسے گینگ کو کارروائی کرنے والوں کو تحفظ مل رہا ہے تو پھر کسی قسم کی سزا ملنے کی توقع بے معنی ہے۔ اس لیے لکیرپیٹنا بند ہونا چاہیے۔ چیخ و پکار سے کچھ نہیں ملے گا کیونکہ میڈیا کی جلد موٹی ہو گئی ہے اور اس میں تکبر کی ملمع بھی چڑھ گئی ہے۔ وہ نہیں بدلے گا کیونکہ اسے تبدیل نہیں ہونے دیا جائے گا۔
(بشکریہ:ستیہ ہندی )