محمد شکیل خان
اعظم خان کے دیرینہ خواب کی تعبیر محمد علی جوہر یونیورسٹی کے صدر دروازے کو توڑنے کے رام پور کورٹ کے حکم پر الہٰ آباد ہائی کورٹ نے روک لگادی ہے۔اڈوکیٹ صفدر علی کاظمی نے بتایا کہ یہ حکم جسٹس اجیت کمار نے سنایا۔ واضح ہوکہ 2اگست کو رامپور کورٹ نے یونیورسٹی کے صدر دروازے کو غیر قانونی بتاکر توڑنے کا حکم جاری کیا تھا جس کے بعد ملک بھر کے علمی حلقوں خصوصاً مسلم آبادی کے اندر زبردست بے چینی پھیل گئی تھی۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے اپنے ایک اہم حکم نامے میں کہا ہے کہ رامپور واقع جوہر یونیورسٹی کا گیٹ اگلی ہدایت تک منہدم نہ کیا جائے۔ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو ایک نوٹس بھی دیا ہے جس میں اس سے اس معاملے پر تفصیلی جواب طلب کی ہے۔ عدالت نے اس پر جواب دینے کیلئے حکومت کو چار ہفتے کی مہلت دی ہے۔عدالت عالیہ نے اپنے حکم میں صاف کہا ہے کہ اگلی ہدایت تک جوہر یونیورسٹی کے گیٹ پر کسی طرح کی انہدامی کارروائی نہیں ہونی چاہئے۔
جسٹس اجیت کمار کی بنچ میں یہ سماعت ہوئی۔ اس معاملے میں اعظم خان نے رامپورکی ضلعی عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ اعظم خان کے وکیل نے اس دعوے کو بے بنیاد بتایا کہ یونیورسٹی کا گیٹ سرکاری زمین پر ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ گیٹ یونیورسٹی ہی کی زمین پر تعمیر کیاگیا ہے۔ عدالت نے ان کی دلیل کو فوری طور پر قبول کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ ہائی کورٹ نے یہ حکم سماجوادی رکن پارلیمان کی پٹیشن پر شنوائی کرتے ہوئے دی ہے۔
اعظم خان کی بہن نکہت افلاک کہتی ہیں کہ رام پور شہر اسمبلی سیٹ سے9بار ایم ایل اے اور یوپی سرکار میں 4 مرتبہ وزیر رہ چکے ہیں۔1996میں راجیہ سبھا کارکن منتخب ہوئے۔ اس وقت رام پور پارلیمانی حلقہ سے راجیہ سبھا ممبر ہیں۔ آپ کی پیدائش رام پور ہی میں 14 اگست 1948 کو ہوئی۔ رام پور میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ1966 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخلہ لیا ۔وہاں سے بی اے آنرز اور ایل ایل بی کی ڈگری حاصل۔ دوران تعلیم ہی آپ نے سیاست میں قدم رکھ دیا تھا۔زمانہ طالب علمی میں سیاسی تحریک چلانے کے الزام میں جیل بھی گئے۔دھیرے دھیرے آپ ترقی کرتے گئے اور آج اترپردیش کے ایک قدآور لیڈر کے طور پر آپ پہچانے جاتے ہیں۔
نکہت افلاک مزیدکہتی ہیں کہ قائد اپنے زمانہ کی پیداوار ہوتا ہے۔ ماحول اس کا تعین کرتا ہے۔ جس وقت آپ نے سیاست میں قدم رکھا رام پور میں غریبوں اور دبے کچلوں کے ساتھ حکومت کا سوتیلا سلوک جاری تھا۔ چنانچہ اسی چیز نے آپ کے مقصد کا تعین کیا اور آپ نے کمزوروں کو اوپر اٹھانے کی ٹھان لی۔آپ کی پوری سیاسی سرگرمی اسی کے ارد گرد گھومتی ہے۔ان کا یہ تحریکی سفر آج بھی جاری ہے۔
اعظم خان کی رہائی کے مطالبوں میں اب شدت پیدا ہو رہی ہے۔شاید یہ آنے والی اسمبلی الیکشن کی تیاری ہو۔کیوں کہ اعظم خان کی گرفتاری پر سماج وادی پارٹی کے قائدین نے جس طرح خاموشی برقرار رکھی ہے اس نے بہت سے سیاسی لیڈروں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ جب سماج وادی پارٹی کا اہم ستون تصور کئے جانے والے اعظم خاں کے ساتھ پارٹی کا رویہ یہ ہے تو باقی لیڈروں ، عہدیداروں اور ورکروں کی کیا حیثیت اور اہمیت ہو سکتی ہے۔ حالانکہ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ اعظم خاں اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے سماج وادی پارٹی کے سربراہ اور دیگر لوگوں کی سرد مہری کے خلاف کوئی شکایت نہیں کی گئی لیکن سماج میں عام طور پر یہ محسوس کیا جارہاہے کہ برے وقت میں سماج وادی پارٹی نے اعظم خاں اور ان کے خاندان کو تنہا چھوڑ دیا۔
اس میں دو رائے نہیں کہ جس انداز کی تحریکات اعظم خاں کے لیے سیاسی سطح پر چلنی چاہئے تھیں وہ نہیں چلائی گئیں یا نہیں چل سکیں۔ نتیجہ سامنے ہے کہ اعظم خاں چھوٹے بڑے پچاسوں مقدموں اور سیکڑوں الزامات کے ساتھ آج سیتا پور جیل میں قید ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے اعظم خاں کی رہائی اور جوہر یونیورسٹی کے تحفظ کے لئے آوازیں اٹھنا شروع ہوئی ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیطلبہ نے حکومت اتر پردیش پر یہ الزام عائد کیا تھا کہ اعظم خاں سے سیاسی انتقام لینے کے لئے نہ صرف متعصبانہ روش اختیار کی گئی بلکہ کئی جھوٹے مقدمات میں پھنسا کر ان کا اور ان کے بچوں کا سیاسی کیریئر ہی ختم کردیا گیا۔ صرف اتنا ہی نہیں اس یونیورسٹی کو بھی تباہ و برباد کیا گیا جس سے ہزاروں بچوں کا مستقبل وابستہ تھا۔
کئی اہم سیاسی و سماجی لوگوں کا ماننا ہے کہ اعظم خاں سے انتقام لینے کے لئے موجودہ سیاسی نظام نے ایک بڑے تعلیمی نظام اور مشن کو اپنی نفرت اور تنگ ذہنی کے سبب تباہ کردیا اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ سمیت سبھی لیڈر و اراکین تماشائی بن کر رہ گئے۔معروف دانشور ، سیاسی تجزیہ کار اور سماج وادی پارٹی کے ترجمان حفیظ گاندھی نے اعظم خاں کی رہائی کے لئے آواز بلند کرتے ہوئے ریاست اتر پردیش کے گورنر کو اے ڈی ایم پٹیالی کے توسط سے ایک میمورنڈم ارسال کیا ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے جوہر یونیورسٹی کی تعمیر و تعلیمی نظام کو نقصان نہ پہنچانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ حفیظ گاندھی مثبت اور تعمیری سیاست میں یقین رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ کسی تعلیمی ادارے یا یونیورسٹی کا نقصان صرف اعظم خاں یا کسی مخصوص لیڈرکا نقصان نہیں بلکہ پورے سماج ریاست اور ملک کا نقصان ہے کیونکہ تعلیمی اداروں میں کسی ایک مذہب یا خطے کے نہیں بلکہ سبھی دھرموں کے طلبا و طالبات اپنے مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں۔
مرادآباد سے سماج وادی پارٹی کے ممبر آف پارلیمنٹ ایچ ٹی حسن نے بھی لوک سبھا اسپیکر سے ملاقات کر اعظم خاں کی رہائی کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے جس سے وہ جیل سے باہر آکر اپنا علاج صحیح طور پر کرا سکیں۔ اب سماج وادی پارٹی کے صدر اکھلیش یادو نے بھی اعظم خاں کی رہائی کے مطالبے کے لئے احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔سیاسی مبصرین یہ بھی کہتے ہیں کہ اب اعظم خان کے حق میں اٹھنے والی آوازیں صرف اعظم خاں کے لیے نہیں بلکہ آئندہ اسمبلی الیکشن کا ماحول بنانے کیلئے ہیں۔اعظم خاں کتنے گنہگار ہیں اور ان کو انصاف کب ملے گا یہ تو عدالت طے کرے گی لیکن سچائی یہ بھی ہے کہ سماج وادی پارٹی کے سرپرست اور سربراہ نے بھی اعظم خاں کے ساتھ شاید مناسب سلوک نہیں کیا۔
جوہر یونیورسٹی اعظم خان کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کو دنیاکبھی فراموش نہیں کرسکتی۔جس وقت اعظم خان نے اس یونیورسٹی کا خاکہ اسمبلی میں پیش کیا تو سیاسی دنیا میں ایک بھونچال آگیا کہ آزاد ہندوستان میں پہلی بار اتنا بڑا تعلیمی ادارہ بنانے کا اعلان ہوا تھا۔ اس لئے جو طاقتیں مسلمانوں کو صرف بڑھئی،میکینک اور رنگ پینٹر ہی دیکھنا چاہتی ہیں انہیں کب گوارا ہوسکتا تھا کہ مسلمان اعلیٰ درجے کی تعلیم حاصل کر سکیں ؟ بس اسی وقت سے یونیورسٹی نگاہوں کا کانٹا بن گئی اور سازشوں کا دور شروع ہوگیا۔اس وقت مرکزمیں کانگریس کی حکومت تھی لیکن اس نے بھی ’یونیورسٹی بِل‘ کو طویل وقت تک لٹکائے رکھا،بڑی مشکل سے منظوری دی بھی تو لفظ ’مولانا‘ ہٹا کر۔تاہم اس وقت کے گورنرعزیز قریشی کی کوششوں سے یونیورسٹی کے افتتاح کا راستہ ہموار ہوگیا۔حالانکہ انہیں اپنے اس عمل کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور مرکزی کانگریس حکومت نے انہیں جلد ہی منظر نامہ سے ہٹا دیا۔ 2014 میں مرکزسے کانگریس حکومت کا خاتمہ ہوگیا لیکن یونیورسٹی مخالفت کا جذبہ وہی رہا۔چنانچہ 2019 کے پارلیمانی الیکشن کے بعد فرقہ پرستوں نے بانی یونیورسٹی اعظم خان کے بہانے یونیورسٹی کے خلاف محاذ کھول دیا۔12 جولائی کواعظم خان کے خلاف زمین قبضہ کرنے کا پہلا مقدمہ درج ہوا۔اس کے بعد مقدموں کا تانتا بندھ گیا۔ اب تک اعظم خان پر 62 مقدمے درج کئے جا چکے ہیں۔
مقدمات کی تفصیل اور تیزی کو دیکھتے ہوئے ایک عام انسان بھی کہہ سکتا ہے کہ یہاں ’قانون کی پاسداری‘ سے زیادہ کسی کو زیر کرنے کی جلدی ہے ورنہ اسی ملک سے ہزاروں کروڑ روپے لے کر بھاگ جانے والے مالیا،نِیرَو مودی جیسوں پر کوئی کارروائی کیوں نہیں ہوئی؟یہاں یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اعظم خان سے آپ کے لاکھ سیاسی اختلافات ہوںمگر جوہر یونیورسٹی ان کی ذاتی نہیں بلکہ قوم کا سرمایہ ہے۔آزادی کے بعد اتنے بڑے لیول پر بننے والی غالباً پہلی مسلم یونیورسٹی ہے، اب اس کی حفاظت بھی قوم کی ذمے داری ہے؟ یونیورسٹی میں اعظم خان کے گھر خاندان کے ہی نہیں بلکہ پوری قوم کے بچے تعلیم پا رہے ہیں۔ایسی تعلیم گاہیں قوم کا روشن مستقبل تعمیر کرتی ہیں ۔
آل انڈیا مسلم مجلس کے قومی جنرل سکریٹری اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سابق رجسٹرار حسیب احمد نے کہا کہ یونیورسٹی کے خلاف مسلسل منفی پروپیگنڈہ چلائے جانے سے یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔انہوں نے یہ بات ایک وفد کے ہمراہ جوہر یونیورسٹی کا دورہ کرنے کے بعد ایک بیان جاری کرکے کہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ یونیورسٹی عام لوگوں کو اور خصوصاً تعلیمی پسماندگی کے شکار مسلمانوں اور مسلم لڑکیوں کو نسبتاً کم فیس لیکر اعلیٰ تعلیم مہیا کرا رہی ہے لیکن یونیورسٹی کے خلاف مسلسل منفی پروپیگنڈہ ہورہا ہے اور اب یونیورسٹی کا صدر دروازہ منہدم کرنے کی تیاری ہے۔ یونیورسٹی کے خلاف اس مہم کے باعث یونیورسٹی میں داخلوں میں بہت گراوٹ آئی ہے۔ زیر تعلیم طلبا اور اساتذہ اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں۔انہوں نے کہاکہ حکومت کے علاوہ تمام سیاسی جماعتیں جو مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کا شکوہ کرتی رہتی ہیں اس معاملے میں نہ جانے کس مصلحت کا شکار ہیں کیوں زوردار احتجاج کرنے سے کترارہی ہیں۔ انہوں نے وضاحت کی کہ حکومت تعلیمی اداروں کو زمین مہیا کراتی ہے لہٰذا اگرجوہر یونیورسٹی کیمپس کی کچھ اراضی پر اعتراض ہے تو معاملہ عدالت کے باہر طے کیا جاسکتا ہے۔ اس یونیورسٹی کا استحکام ملک وقوم کے مفاد میں ہے اور اس کا زوال پذیر ہونا ملک اور قوم کا نقصان ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ اعظم خان دور حاضر کے سرسید ہیں ۔ سر سید نے بھی جب علی گڑھ میں یونیورسٹی کے قیام کی کوشش شروع کی تھی تو انہیں بھی سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔لیکن سر سید دھن کے پکے تھے انہوں نے جو کام شروع کیا تھا اس کو جب تک پائے تکمیل تک نہ پہنچادیاآپ چین سے نہیں بیٹھے۔آج پوری قوم سر سید کے بار احسان ہے۔ اعظم خان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے اور وہ مردانہ وار مقابلہ کر رہے ہیں ۔اللہ کی ذات سے قوی یقین ہے کہ وہ اپنے مشن میں کامیاب ہوجائیں گے۔لیکن ہم لوگوں کو بھی اپنا فریضہ ادا کرنے کی ضرورت ہے۔اس نازک وقت میں اگر ہم اعظم خان کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے تو پھر بحیثیت قوم ہم مجرم ہوں گے اور دنیا کی تاریخ میں ہمیں ایک بزدل اور بے حس قوم کی حیثیت سے یاد رکھا جائے گا۔