تحریر:ابھے کمار
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر رتن لال اور لکھنؤ یونیورسٹی میں پڑھانے والے روی کانت فرقہ پرستوں کے حملوں کے شکار بنے ہیں؟ ہرگز نہیں ۔ امبیڈکر نوازدانشوروں کو دانستہ طور پر ٹارگیٹ اس لیےکیا جا رہا ہےکیونکہ وہ ہندو بنام مسلمان کے فرقہ وارانہ کھیل کو ذات پات پر مبنی عدم مساوات اور سماجی انصاف کی بات کر بگاڑ دیتے ہیں۔ جب وہ ذات پات پر مبنی ہندو سماج کی بات کرتے ہیں اور برابری کے لیے لڑائی لڑتے ہیں تو یہ سب ہندوتوا کا مسلم مخالف سیاست میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ہندو فرقہ پرست یہی چاہتے ہیں کہ بھارت اور ہندو سماج کی ساری برائیوں کے لیے مسلمانوں اور ان کے مذہب کوقصور وار ٹھہرا دیا جائےتاکہ ہندو سماج کے اندر قائم اعلیٰ ذاتوں کی بالادستی پر کوئی بات نہ ہو سکے۔ اس لیے ہمیں دلتوں کے سرگرم نمائندوں پر ہو رہے حملوں کو مذہبی جزبات کو مجروح کر دیتے تک ہی محدود نہیں کرنا چاہیے۔ ہفتہ کی دوپہر کو ایک اچھی خبر آئی۔ دہلی یونیورسٹی کے ہندو کالج کے ایسوسی ایٹ پروفیسر رتن لال کو دہلی کی ایک عدالت نے ضمانت دے دی۔ انہیں جمعہ کی رات دہلی میں ان کی رہائش گاہ سے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر اس بات کے لیے کیس درج کیا گیا کہ انہوں نے سماج میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو پھیلایا اور لوگوں کے مذہبی جزبات کو مجروح کیا۔ مقدمہ دائر کرنے کے علاوہ رتن لال کو سوشل میڈیا پر جم کر گالیاں دی گئیں۔ فرقہ پرستوں نے ان کو جان سے بھی مارنے کی دھمکی بھی دی، جس کی وجہ سے انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر بندوق کا لائسنس دینے کا مطالبہ کیا۔ رتن لال کی پوسٹ بنارس کی گیانواپی مسجد کے فوارے سے متعلق تھا، جس کے بارے میں دائیں بازو کے ہندو گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ شیولنگ ہے۔ 50سالہ رتن لال بہار کے مظفر پور کے کرہانی تھانہ علاقے کے لڈورا گاؤں کے ایک دلت گھر میں پیدا ہوئے ۔ ان کے آنجہانی والد رام بلی پرساد محکمہ انکم ٹیکس میں کام کرتے تھے۔ رتن لال 1991 میں اعلیٰ تعلیم کے لیے دہلی آئے تھے۔2002 میں وہ ہندو کالج کے شعبہ تاریخ میں پروفیسر بنے۔ 2015 کے بہار اسمبلی انتخابات میں انہوں نے ویشالی ضلع کے پاتے پور حلقہ سے آزاد امیدوار کے طور پر اُترت، مگر و ہ ہار گئے۔
یاد رہے کہ تقریباً 70 فیصد دلت، جن کو صدیوں تک اچھوت مانا گیا، سماج میں کافی پسماندہ ہیں۔ یا تو وہ کے پاس زمین نہیں ہیں یا ان کے پاس زمین کا بہت ہی چھوٹا ٹکڑا ہے۔ وہ زیادہ تر زرعی مزدور اورشہروں میں ورکر کے طور پر کام کرتے ہیں ۔ قوانین ہونے کے باوجود ان، آج بھی ان کے ساتھ اچھوت جیسا برتاؤکیا جاتا ہے۔ وہ آج بھی ذات پات کے مظالم کے شکار ہو تے ہیں۔ کئی جگہوں پر آج بھی دلتوں کو مندروں میں داخل ہونے سے روکا جاتا ہے۔ گھوڑوں پر سوار ہونے یا اچھے کپڑے پہننے پر ان کے اوپر حملہ کیا جاتا ہے۔دلتوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ اب پڑھ لکھ گیا ہے۔ رتن لال ان میں سے ایک ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ریزرویشن کے سہارے کچھ دلت کالج اور یونیورسٹیوں میں پروفیسر بن گیے ہیں۔ وہ ڈاکٹر امبیڈکر کے نظریہ سے متاثر ہیں اور وہ سماج کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔وہ دھیرے دھیرے سماج میں اعلیٰ ذات کی بالادستی کو چیلنج بھی کر رہے ہیں۔ ایسے بدلاو فرقہ پرست طاقتوں کو بالکل بھی پسند نہیں ہے۔
رتن لال کی پی ایچ ڈی کا مقالہ مورخ کے پی پرجیسوال (1881-1937) پر ہے۔ جیسوال ایک بہت ہی بااثرتاریخ داں تھے، جنہوں نے ’ہندو پولیٹی‘(1924) کتاب تحریر کی۔ ویدک اور دیگر کلاسیکی ادب کو پڑھ کر ، جیسوال یہ دلیل دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ قدیم بھارت کے ہندو دور میں ’خودمختار اسمبلیاں‘منعقد ہوتی تھیں۔ یہاں تک کہ وہ قدیم دور میں ’ہندو جمہوریہ’ اور’ہندو امپیریل سسٹم‘کے وجود کا بھی دعویٰ کرتا ہے۔ رتن لال کو 2014 میں پی ایچ ڈی سے نوازا گیا۔ مورخ جیسوال کے کام کو قوم پرست رہنماؤں نے برطانوی نوآبادیاتی حکمرانوں کے بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کیا، جو ہندوستانیوں کی خود حکمرانی کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگاتے تھے۔ تاہم، جیسوال کے کام کی کمزوری یہ تھی کہ انہوںنےبرطانوی مورخ جیمس مل کے فرقہ وارانہ تاریخ نویسی کے دائرےسے باہر نہیں نکل پائے ۔جیوسوال کا یہ کام 1920 کی دہائی میں شائع ہوا اور ان کی کتاب کو پڑھ کر ہندو فرقہ پرستی کی آگ مزید تیز ہو گئی، کیونکہ وہ ہندو دور کی حد سے زیادہ تعریف کرنے لگے اور بھارت کی تاریخ کو ہندو تاریخ کے طور پر پیش کرنے لگے۔ ایسی باتوں کو جان کر مسلم لیڈروں میں بھی مسلم دور کی جم کر تعریف کرنے کی کوشش ہونے لگی۔ دیکھتے ہی دیکھتے بھارت کی تاریخ کو سیکولر نظریہ سے دیکھنے کے بجائے فرقہ وارانہ لینس سے دیکھا جانے لگا ۔ رتن لال کا کام اس طرح جدید ہندوستانی تاریخ کے ایسے نازک دور سے متعلق ہے۔
تحقیق اور تدریس کے علاوہ رتن لال صحافت بھی کرتے ہیں ۔ ان کے بنائے ہوئے ویڈیو کافی پسند کیے جاتے ہیں۔ مشہور یوٹیوب چینل ’امبیڈکر نامہ‘ کی وجہ سے ان کو دور دور تک لوگ جانتے ہیں۔ اپنے چینل پر، وہ عصری مسائل پر بات چیت اور انٹرویوز کرتے ہیں۔ خاص طور پر وہ مسائل جو پسماندہ کمیونٹی جیسے دلت، آدی واسی ، او بی سی اور اقلیت کی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔ وہ دلت بہوجن آئیڈیالوجی سے اپنی بات کو رکھتے ہیں۔ یہ سب ہندو دائیں بازو اور ان فرقہ پرست طاقتوں کو ہرگز بھی پسند نہیں ہے۔ فرقہ پرست یہ کبھی نہیں چاہتے ہیں کہ ذات پات پر مبنی غیر مساوی سماجی نظام کوموضوع بحث بنایا جائے۔ رتن لال دہلی یونیورسٹی کے ایک معزز کالج میں ایک مقبول استاذ کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔ ان کے مداحوں اور پیروکاروں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ان کو کھانا بنانے کا بھی بڑا شوق ہے۔ دہلی یونیورسٹی کے اساتذہ کی کمیونٹی کے ایک فعال رکن کے طور پر جانے جاتے ہیں جو اکثر ترقی پسند تعلیمی پالیسیوں کے حق میں کھل کر بولتے ہیں۔اس لیے رتن لال کی گرفتاری کو دلتوں کو خاموش کرنے کی سازش کے ساتھ جوڑ کر دیکھنا چاہیے۔
ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے بہانے، تمام بولنے والے دلتوں کو خاموش کرنے کا بڑا ہندوتو ڈیزائن ہے ۔ اعلیٰ ذاتیں، جو ریاست کے اداروں ، میڈیا پر قابض ہیں، بہوجن کمیونٹی کی کسی بھی تنقیدی آوازوں کو دبا دینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ ان کو پوسٹ کو جان بوچھ کے طول دیا گیا اور اسے ہندووں کے جذبات کو مجروح کرنے سے جوڑ دیا گیا۔ مگر کوئی ہندودھرم کے ان ٹھیکا داروں سے یہ نہیں پوچھتا ہے کہ ان کو کروڑ ہندووں کی ترجمانی کرنے کا لائسنس کس نے دے دیا ہے؟ اپنے کم وسائل کے باوجود بھی رتن لال جیسےایکٹوسٹ اسکالر نے اپنی بات دور دور تک پہنچائی ہے۔ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کے ذریعےانہوں نے برابری کے لیےلڑائی لڑی ہے۔ اس لیے پروفیسر رتن لال پر حملے کے پیچھےہندو جذبات کو ٹھیس پہنچانے کا بہانا بنایا جا رہا ہے۔ اصل مقصد ایک امبیڈنواز ایکٹوسٹ کو خاموش کرنا ہے۔ اس طرح مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے نام پر ان کے جیسے دلت ایکٹوسٹ کی شخصی آزادی اور اظہار رائے کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے۔یہ خوش آئند ہے کہ عدالت نے انہیں ضمانت دے دی ہے، لیکن ایک آمرانہ ریاست اور جنونی فرقہ پرست طاقتوں کے بیچ امبیڈکر کے مشن کوآگے بڑھانا ایک بڑا چیلنج ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)