تحریر : مسعودجاوید
حکومت مہاراشٹر کے سرکاری اعلانیہ کے مطابق اعظم کیمپس پونے کو حکومت نے یونیورسٹی کا درجہ دیا اور اب یہ تعلیمی ادارہ پی اے انعامدار یونیورسٹی P A Inamdar University کی حیثیت سے اپنی تعلیمی خدمات انجام دے گا۔ واضح ہو کہ ریاست مہاراشٹر میں یہ پہلی اقلیتی یونیورسٹی ہے۔
شمالی ہند میں جہد مسلسل کرنے والوں کی قلت کے اسباب کیا ہیں ؟ عزم مصمم کی کمی؟ وسائل کی قلت؟ قیادت کے مفہوم کو انتخابی سیاست تک محدود رکھنا؟ مسلمانوں کی تعلیمی سماجی اور معاشی ترقی قیادت کی ترجیحات میں نہیں ہونا؟ یا کچھ اور ؟
مفکرین ملت کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا دوران گفتگو ایک ایسا انکشاف ہوا جس نے سالہا سال سے میرے دل و دماغ میں بیٹھے پرسیپشن کو کلیر کر دیا ۔ وہاں بعض معتبر لوگوں نے بتایا کہ شمالی ہند میں اعلی حسب و نسب کے تقریباً دس کنبے ہیں جن کی سرپرستی کے بغیر کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا جا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے مسلمانوں کو ان کی زبوں حالی سے نکالنا ان بڑی شخصیات کی ترجیحات میں نہیں ہے۔ میں نے مرحوم ڈاکٹر ممتاز احمد خاں الامین ایجوکیشنل سوسائٹی بنگلور ، پی اے انعامدار صاحب مہاراشٹر کوسموپولیٹن ایجوکیشن سوسائٹی پونے، ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب شاہین ایجوکیشنل سوسائٹی بیدر کرناٹک اور مسلم ایجوکیشنل ، سوشل ، کلچرل سوسائٹی حیدرآباد کا نام لیا تو انہوں نے کہا سرپرستی کی بات شمالی ہند کے تناظر میں کی گئی ہے۔ (یہ بعض حضرات کی رائے ہے جس سے اختلاف کی گنجائش ہے)
پیر پاشا حسینی عبدالرزاق انعام دار ایک عام آدمی، ایک پولیس والے کے بیٹے، سمپل بی اے پاس ، وسائل کی قلت کے سبب اعلٰی تعلیم حاصل نہیں کر سکے۔ لیکن اپنی جہد مسلسل سے آج ایک یونیورسٹی کے روح رواں ہیں ۔
یہ سفر صرف اس لیے ممکن ہوا کہ انہوں نے ہر اس چیز میں اپنی صلاحیتوں کی بہترین سرمایہ کاری کی جس کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ وہ معاشرے کو بہتر بنائے گا اور اس کے نتیجے میں ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرے گا۔
مثال کے طور پر ان تعلیمی اداروں کو لیں جن کی انہوں نے بنیاد رکھی یا اس کے رکن ہیں۔ یا اقلیتوں کے قانونی مسائل کی تعداد جس میں انہوں نے گہری دلچسپی لی ۔ تعلیمی اداروں میں ریزرویشن اور خصوصی مراعات کا فائدہ کافی عرصے سے دوسری اقلیتیں حاصل کر رہی تھیں لیکن مسلمانوں کی کئی برادریاں او بی سی فہرست میں درج نہیں ہونے کے سبب مسلمان ان مراعات اور ریزرویشن سے محروم رہتے تھے، انہوں نے اپنی مسلسل کوششوں سے 60 مسلم کمیونٹیز کو او بی سی کی سرکاری فہرست میں شامل کرایا اور موقع فراہم کرایا کہ وہ ہندوستانی حکومت کی طرف سے او بی سی کو ہر شعبے میں ریزرویشن کی شکل میں پیش کردہ مواقع کا بہترین استعمال کریں – تعلیم سے لے کر ملازمت تک۔
مسلممعاشرہ میں مثبت اور صحت مند فرق لانے کے ان کے مشن کو حیرت انگیز کامیابی ملی ہے۔ اس کے لئے انہوں نے 23 ایکڑ رقبے کو تیار کرنے میں گہری دلچسپی لی جس میں اصل میں دو پرائمری اور دو سیکنڈری اسکول تھے جس کی تعمیر و توسیع کرتے ہوئے ایک متاثر کن 29 تعلیمی ادارے بنانے کے لائق بنایا۔
اس کا مقصد بنیادی طور پر مسلمانوں اور دیگر لوگوں کے لیے بہترین تعلیمی سہولیات مہیا کرنا تھا۔ آج، ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اعظم کیمپس نے پری اسکول سے لے کر پوسٹ گریجویٹ کورسز تک 25,000 طلباء کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہا ہے۔ ان اداروں میں چمکتا ہوا اینگلو اردو بوائز اینڈ گرلز ہائی اسکول ہے جو پچھلے کچھ سالوں سے ایس ایس سی کے امتحانات میں ٹاپر بنا رہا ہے۔
مسلم کوآپریٹیو بینک، پونے کے چیئرمین کے طور پر، انہوں نے بینک کے ذخائر کو چھ کروڑ روپے سے بڑھا کر 500 کروڑ روپے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے بینک میں 16 برانچیں شامل کیں جس سے برانچوں کی تعداد چار سے بڑھ کر 24 ہو گئی۔
ان کی جدید ہاؤسنگ، فنانس اور تعلیمی اسکیموں نے اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ پونے کے ہر مسلم خاندان میں کم از کم ایک نوجوان یا تو تعلیمی طور پر، روزگار میں یا مکان حاصل کرنے میں فائدہ اٹھائے۔ اس طرح انہیں نہ صرف پونے میں مسلم کمیونٹی کا چہرہ بدلنے کا سہرا دیا جاتا ہے بلکہ مسلم کمیونٹی کے سوچنے کے عمل کو تبدیل کرنے میں رہنما سمجھا جاتا ہے۔
(یہ مضمون نگار کے ذاتی خیالات ہیں)