محمد علی جوہر یونیورسٹی رام پور حقیقت میں ملائم سنگھ یادو کا تحفہ ہے ، جس کے لیے محمد اعظم خاں نے اپنے خون جگر سے اس پودے کی آبیاری کی اور اپنی پوری زندگی اس کے بنانے میں لگا دی۔ بدقسمتی کی بات تھی کہ تقریباً دس سال تک یونیورسٹی کی منظوری کی تجویز اترپردیش کے گورنر کی منظوری کے لیے پڑا رہا اور کانگریس کے دور حکومت میں مقرر کے گئے دو گورنر نے بھی منظوری نہیں دی یہ صرف فرقہ پرستی کی بنیاد پر تھا ، اس لئے کہ اس کے بننے سے یونیورسٹی کے تمام محکموں میں مسلمانوں کو 50 فیصد ریزرویشن مل جاتا اور ان کے لیے ایک انقلابی قدم ہوتا ۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے ایک گورنر ملائم سنگھ یادو سے یہ کہا ’’ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں یونیورسٹی کے بل کو منظوری دے دوں اور اس کے بننے کے بعد اس کا دوسرا دروازہ پاکستان میں کھل جائے اس سےپہلے ہم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی بنا کر ملک کے تقسیم کا درد جھیل چکےہیں اور علی گڑھ یونیورسٹی نے پاکستان بنوانے میں مدد کی تھی۔‘‘اس سے زیادہ بدقسمتی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ یہ گورنر بھارت میں پولیس محکمہ میں ایک بہت بڑے عہدے پر فائز رہے اور انہوں نے اس زمانے میں کس طرح کام کیا ہوگا یہ ان کے قول سے ظاہر ہے ۔
جب میں اترا کھنڈ کاگورنر تھا تو ملائم سنگھ یادو ، اعظم خاں اور اکھلیش یادونے مجھے ان تمام باتوں سے آگاہ کرایا تھا اور تفصیلی جانکاری دی تھی۔
ایک میٹنگ میں جب ملائم سنگھ یہ باتیں بیان کررہے تھے وہاں موجود اعظم خاں نے جذبات میں پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کردیا اورانہوں نے خدا سے دعا کی تھی کہ اگر اللہ نے چاہا تو ایک دن کو ہی صحیح عزیز قریشی کو اترپردیش کا گورنر بنا دیں تاکہ وہ یونیورسٹی کے اس بل کو منظوری دے دیں۔ شاید ان کی دعا قبول ہوئی اور مجھے تھوڑے دن کے لیے اترپردیش کا گورنر بنا دیاگیا ۔
یہ بات ہم لوگوںکو جان لینا چاہئے کہ گورنر چاہے ایک دن کا ہو یا 5 سال کے لیے ہو وہ گورنر ہی ہوتاہے مگر قائم مقام گورنر کوئی چیز نہیں ہوتا۔ جب میں نے اس فائل کا مطالعہ کرنے کے لیے منگوایا تو ایسا لگا کہ راج بھون میں بھونچال آگیا ہو، اس کی اطلاع مرکز ی سرکار کے وزارت داخلہ کو ہوگئی وہاں سے ہوم سکریٹری کا ٹیلی فون گورنر کے پرنسپل سکریٹری کو آیا کہ وہ فائل فوراً دہلی بھیج دی جائے۔ پرنسپل سکریٹری ایک خاتون تھیں انہوںنے جواب دیا کہ وہ فائل گورنر کے ذاتی مطالعہ میں ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ان سے فائل واپس لی جائے گورنر اپنی نوعیت کا ایک پاگل شخص ہے ۔ اس کے بعد لگاتار ٹیلی فون دہلی سے آتے رہے کہ کسی بھی طرح اس فائل گورنر سے لے کر دہلی سرکار کے پاس بھیج دی جائے۔ پرنسپل سکریٹری ایک بہت ہی قابل اور ایماندار خاتون تھیںانہوں نے تمام بات مجھ سے بتا دیں۔ میں نے فائل کا پوری طرح مطالعہ کیا اور اس نتیجہ پرپہنچا کہ صرف اس لئے یونیورسٹی کی منظوری نہیں دی جا رہی ہے کہ اس سے مسلمانوں کا فائدہ ہوگا اور اس سے بڑی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال ایک جمہوری انتظامیہ میں دوسری نہیں ہو سکتی۔
میں نےاس سلسلے میں ضروری حکم دئے تمام معلومات جمع کی اور تفصیلی نوٹ بنا کر اترپردیش کے ایڈووکیٹ جنرل کو ان کی رائے کے لیے بھیج دیا اسی دوران میرے پاس سیکڑوں ٹیلی فون آئے اور مجھے وارننگ دی گئی کہ اگر میں نے اس بل کو منظور کیا تو مجھے اپنی گورنر کی کرسی سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔
اس دوان بھارت سرکار کے کچھ اہم شخصیات نے مجھے وارننگ دیتے ہوئے یہ کہاکہ میں اپنے موجودہ 3 سال پورے کروں اور اگر میں جوہر یونیورسٹی کے بل کو منظوری نہیں دوں تو اس کے بعد اگلے 5 سال کے لئے مجھے وزیر اعظم مودی جی دوبارہ گورنر بنادیں گے ۔ میں نے جواب دیا اپنی قوم اور مسلمانوں کی بھلائی کے لیے اگر ایسی 10 گورنر کی کرسی قربان کرنا پڑے تو میں انہیں جوتے کی نوک پر رکھتاہوں اور کوئی پرواہ نہیں کرتا کہ مجھے کل کے نکالتے ہوئے آج نکال دیں،لیکن بل کو منظوری ہر قیمت پر دوںگا چاہے میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ جب میں یہ کہہ رہا تھا تو اس وقت کسی پریس رپورٹر نے اس بات کی ویڈیو ریکارڈ کرلیا اور اسے وائرل بھی کردیا کہ میں ٹھوکر دکھاکر بات کررہا ہوں۔
مجھے اچھی طرح معلوم تھاکہ بل کو منظوری دینے کے ساتھ ہی میری گورنر کی کرسی ہی ختم ہوجائے گی اور اس سلسلے میں اس وقت کی حکومت ہند کے اس وقت کے ہوم سکریٹری نے مجھے اچھی طرح اس بات کی ووارننگ دی تھی اور جواب میں میں نے اس کو اپنی سخت زبان میں اس کا جواب بھی دے دیا تھا۔
یہ سرکلر بھارت کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ ایک محمد علی جوہر یونیورسٹی کا بننا برداشت نہیں ہو رہاہو اور فرقہ پرست لوگوں کے دلوں میں جن میں تمام پارٹیوں کے لوگ شامل ہیں ، سینوں پر سانپ لوٹ رہے ہیں اور اس سب کی قیمت اعظم خاں کو بھاری شکل میں ادا کرنی پڑ رہی ہے ۔ مجھے اپنے آپ پر فخر ہے کہ میں نے اپنی قوم اور ملک کے لیے یہ معمولی کام کیا۔ میرا کوئی بڑا کارنامہ نہیں ہے صرف میں اپنے فرض کو ادا کیا ہے۔ ایک غلط فہمی کو اور دور ہونا چاہئے کہ میں نے یونیورسٹی کو اقلیتی یونیورسٹی کا درجہ نہیں دیاتھا بلکہ یونیورسٹی کا وجود ہی نہیں تھا اور اگر میں اس بل کو منظوری نہیں دیتا تو یونیورسٹی ختم ہو جاتی، وجود میں ہی نہیں آتی اس لئے اس بل کو منظوری دے کر ہی میں نے یونیورسٹی کے وجود کو قائم کیا اور اسے قانونی حیثیت دی جو یقیناً بہت بڑا کام تھا۔ آج کئی طاقتیں رام پور کی یونیورسٹی کو ختم کرنے کے لیے لگی ہوئی ہیں، لیکن یہ ہر سیکولر شخص کے لیے اور خاص طور سے پوری مسلم قوم کے لیے ایک چیلنج ہے کہ وہ جان کی بازی لگا کر اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا کر یونیورسٹی کی حفاظت کریں اور اس کے وجود کو قائم رکھیں اور اگر ضرورت پڑے تو سارے ملک میں اس کے لیے کمر کس کر لڑائی شروع کردیں۔